خوارج کی ابتداء اور ان کی پہچان (حصہ دوم )
خوارج کی ابتداء اور ان کی پہچان
(حصہ دوم )
الحمد للہ والصلوۃ والسلام علی رسول اللہ اما بعد !
بعض علماء کرام اس بات کی پختہ رائے رکھتے ہیں کہ خارجیوں کی ابتداء دراصل رسول اللہ ﷺ کی حیات طیبہ سے ہی ہوگئی تھی یہ علماء ذوالخویصرہ کو خارجیوں کا پہلا آدمی شمار کرتے ہیں ۔ اس شخص نے رسول اللہ ﷺپر اس سونے کی تقسیم کی بارے میں اعتراض کیا تھا جسے سیدناعلی بن طالب رضی اللہ عنہ نے ملک یمن سے نبی کریم ﷺکی طرف مدینہ منورہ روانہ کیا تھا۔ اس وقت آپ رضی اللہ عنہ رسول اللہ ﷺکی طرف سے یمن کے امیر گورنر مقرر تھے ۔
سیدنا ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ : حضرت علی بن ابو طالب رضی اللہ عنہ نے یمن سے رسول اللہ ﷺکے پاس بیری کے پتوں سے دباغت دیے ہوئے چمڑےکےایک تھیلے میں سونےکے چندڈلے بھیجے ان ڈلوں سے ابھی کان کی مٹی بھی صاف نہیں کی گئی تھی پھر نبی کریمﷺ نے وہ سونا چار آدمیوں میں تقسیم کردیا یعنی عیینہ بن بدر ، اقرع بن حابس ، زید بن خیل اورعلقمہ یاعامربنی طفیل رضی اللہ عنہم کے درمیان ۔ آپ ﷺکے اصحاب میں سے ایک آدمی نے اس پر کہا : ان لوگوں سے زیادہ ہم اس سونے کے حق دار تھے ۔ راوی کا کہنا ہے کہ جب نبی مکرمﷺ کو معلوم ہوا تو آپنے فرمایا :
«أَلاَ تَأْمَنُونِي وَأَنَا أَمِينُ مَنْ فِي السَّمَاءِ، يَأْتِينِي خَبَرُ السَّمَاءِ صَبَاحًا وَمَسَاءً»،
قَالَ: فَقَامَ رَجُلٌ غَائِرُ العَيْنَيْنِ، مُشْرِفُ الوَجْنَتَيْنِ، نَاشِزُ الجَبْهَةِ، كَثُّ اللِّحْيَةِ، مَحْلُوقُ الرَّأْسِ، مُشَمَّرُ الإِزَارِ، فَقَالَ يَا رَسُولَ اللَّهِ اتَّقِ اللَّهَ،
قَالَ: «وَيْلَكَ، أَوَلَسْتُ أَحَقَّ أَهْلِ الأَرْضِ أَنْ يَتَّقِيَ اللَّهَ»
قَالَ: ثُمَّ وَلَّى الرَّجُلُ، قَالَ خَالِدُ بْنُ الوَلِيدِ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، أَلاَ أَضْرِبُ عُنُقَهُ؟
قَالَ: «لاَ، لَعَلَّهُ أَنْ يَكُونَ يُصَلِّي»
فَقَالَ خَالِدٌ: وَكَمْ مِنْ مُصَلٍّ يَقُولُ بِلِسَانِهِ مَا لَيْسَ فِي قَلْبِهِ،
قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «إِنِّي لَمْ أُومَرْ أَنْ أَنْقُبَ عَنْ قُلُوبِ النَّاسِ وَلاَ أَشُقَّ بُطُونَهُمْ»
قَالَ: ثُمَّ نَظَرَ إِلَيْهِ وَهُوَ مُقَفٍّ، فَقَالَ: «إِنَّهُ يَخْرُجُ مِنْ ضِئْضِئِ هَذَا قَوْمٌ يَتْلُونَ كِتَابَ اللَّهِ رَطْبًا، لاَ يُجَاوِزُ حَنَاجِرَهُمْ، يَمْرُقُونَ مِنَ الدِّينِ كَمَا يَمْرُقُ السَّهْمُ مِنَ الرَّمِيَّةِ»، وَأَظُنُّهُ قَالَ: «لَئِنْ أَدْرَكْتُهُمْ لَأَقْتُلَنَّهُمْ قَتْلَ ثَمُودَ»
[ رواہ البخاری ، کتاب المغازی : رقم الحدیث : 4351 ، صحیح مسلم ، کتاب الزکاۃ رقم الحدیث : 1064 ]
“تم میرے اوپر اعتبارنہیں کرتے حالا نکہ اس اللہ نے مجھ پر اعتبار کیا ہے اور اس اللہ رب العزت کی وحی جو آسمان پر ہے میرے پاس صبح و شام آئی ہے ”
راوی نے بیان کیا کہ : پھر ایک شخص کہ جس کی آنکھیں دھنسی ہوئی تھیں ، دونوں رخسار ابھرے ہوئے تھے، پیشانی بھی ابھری ہوئی تھی ، ڈاڑھی گھنی اور سر منڈا ہواتھا ، تہبند اُٹھائے ہوئے تھا ۔ ۔ ۔ کھڑا ہوا اور کہنے لگا : یا رسول اللہ! اللہ سے ڈریں ۔
آپﷺنے فرمایا : “افسوس تجھ پر ۔ کیا میں روئے زمین پر اللہ سے ڈرنے کا سب سے زیادہ مستحق نہیں ہوں؟
راوی نے بیان کیا کہ : پھر وہ شخص چلا گیا ۔ خالد بن ولید رضی اللہ عنہ نے عرض کیا : اے اللہ کے رسول ﷺ! میں کیوں نہ اس شخص کی گردن مار دوں؟
نبی کریمﷺنے فرمایا : نہیں شاید وہ نماز پڑھتا ہو ۔
اس پرخالد بن والید رضی اللہ عنہ نے عرض کیا : بہت سے نماز پڑھنے والے ایسے ہوتے ہیں جوزبان سے اسلام کادعوی کرتے ہیں جبکہ ان کے دل میں اسلام نہیں ہوتا ۔
نبی کریم ﷺنے فرمایا : مجھے اس بات کا حکم (اللہ عز وجل کی طرف سے) نہیں دیا گیا کہ لوگوں کے دلوں کی کھوج لگاؤں اور نہ اس کا مجھے حکم ہوا ہے کہ ان کے پیٹ چاک کروں ۔ ”
راوی نے بیان کیا کہ : پھر نبی کریمﷺ نے اس منافق کی طرف دیکھا تو وہ پٹھ پھیر کر جار ہا تھا ۔
آپﷺنے فرمایا : “اس کی نسل سے ایسی قوم نکلے گی جو کتاب اللہ کی تلاوت بڑی خوش الحانی کے ساتھ کرے گی ۔ لیکن قرآن ان کے حلق سے نیچے نہیں اتر ے گا ۔دین سے وہ لوگ اس طرح نکل جائیں گے جیسے تیر جانور کے جسم سے پار نکل جاتا ہے ۔ “ اور میرا یقینی گمان یہ نبی کریمﷺنے یہ بھی فرمایا تھا : “اگر میں نے ان کا دور پا لیا تو بالکل قوم ثمود کی طرح ان کو قتل کر ڈالوں گا۔ “
مندرجہ بالا حدیث میں جس شخص کی یہ علامات بیان ہوئی ہیں اس کا تذکرہ صحیح البخاری کی دیگر احادیث میں بھی آیا ہے جیسے کہ “کتاب المناقب ، باب علامات النبوۃ فی الاسلام ” رقم الحدیث : 3610 میں اس کا نام اور اس فرقے کی مزید دیگر علامات کا ذکر بھی موجود ہے ۔ اسی طرح کتاب استتابۃ المرتدین ، باب من ترک قتال الخوارج ۔۔۔۔ الخ رقم الحدیث : 6933 میں بھی اس کا ذکر موجود ہے ۔
ابن جوزی رحمہ اللہ کی رائے :
اس حدیث کی شرح میں امام ابن جوزی نے لکھا ہے کہ : خارجیوں کا سب سے پہلا شخص خارجیت کا مؤسس ان میں سب سے بُرا (کہ جسں اس فتنے کی بنیاد رکھی)ابن ذو الخویصرہ تمیمی تھا ۔ روایات میں جو اس کے الفاظ منقول ہوئے ہیں ۔ ان میں سے یوں بھی اس نے کہا تھا :
يا رسول الله اعدل ۔ ۔ ۔
الله كے رسول ! انصاف کریں ۔
چنا نچہ آپﷺنے فرمایا : ويلك أ ومن يعدل اذا لم أعدل؟
افسوس ہے تم پر ! اگر میں انصاف نہیں کر رہا تو دنیا میں اور کون انصاف کرے گا؟
[صحیح مسلم رقم الحدیث : 2456 ]
تو یہ پہلا خارجی تھا جس نے اسلام میں خروج کیا تھا ۔ اس کے لیے مصیبت یہ تھی کہ یہ ظالم اپنی ذاتی رائے پر راضی تھا ۔ اگریہ (بدبخت ) توقف کرتا اور ہاں اس مجلس میں رکا رہتا تو اس بات کو جان لیتا کہ رسول اللہ ﷺکے فیصلہ و حکم اور رائے کے اوپر کسی کی رائے کی کوئی حیثیت نہیں ہے ۔ اس آدمی (عبد اللہ بن نافع ذو الخویصرہ التمیمی )کے پیروکار ہی وہ لوگ تھے کہ جنہوں نے امیر المؤمنین سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے جنگ کی تھی ۔
[دیکھیے ؛ امام ابن جوزی رحمہ اللہ کی ” تلبیس ابلیس” ص : 90 ]
جیسا کہ اوپر حاشیہ میں صحیح بخاری کی حدیث 3610 میں ذکر ہے کہ حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں : میں گواہی دیتا ہوں کہ یہ حدیث میں نے خود نبی کریم ﷺ سے سنی تھی اور میں اس بات کی گواہی دیتا ہوں کہ : امیر المؤمنین سیدنا علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ نے ان خارجیوں سے جنگ کی تھی ۔ اس وقت میں بھی سیدنا علی رضی اللہ عنہ کے ساتھ تھا ۔
عبد اللہ بن ذوالخوایصرہ کو خوارج کا پہلا سردار قرار دینے والوں میں درج ذیل علماء عظام شامل ہیں :
(١) ۔ ۔ ۔ امام ابو محمدجزم
[الفصل فی الملل والاھواء والنحل 1/157 ]
(٢) ۔ ۔ ۔ ۔ علامہ ابو الفتح محمد بن عبد الكريم شهرستانی
[الملل والنحل للشھرستانی : 1/161]
ليكن بعض علماء كي رائےہے کہ خارجیوں کے فتنے کا آغاز امیر المومنین سیدنا عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ کے خلاف ان کے خروج سے ہوا تھا ۔ خوارج کی نشاۃ اُولیٰ اس فتنہ کے اٹھا نے سےہوئی تھی کہ جسں کا انجام انتہائی ظلم واستبداد اور سرکشی کے ساتھ سيدنا عثمان رضی الله عنہ كے قتل پرہوا تھا ۔ یہ فتنہ کہ جسے ان لوگوں نے اٹھا یا تھا اس کا نام “پہلا فتنہ ” رکھا گیا تھا ۔
[عقیدۃ اہل السنۃ فی الصحابۃ : 3/1141 ]
عقیدہ طحاویہ کے شارح نے لکھا ہے کہ : خارجی اور شیعہ دو نوں گروہ اس پہلے فتنہ میں شریک ہوئے تھے ۔
[شرح عقیدہ طحاویہ ، ص: 563]
علامہ ابن کثیر رحمہ اللہ نے ہنگامہ آرائی کی وجہ سے ان لوگوں پر خوارج کے نام کا اطلاق کیا ہے کہ جنھوں نے امیر المومنين سیدنا عثمان بن عفان رضی الله عنہ کے خلاف خروج کر کے انھیں شہید کر ڈلاتھا ۔ علامہ ابن کثیر رحمہ اللہ نے جناب عثمان رضی اللہ عنہ کے قتل کے بعد خوارج کا ذکر کرتے ہوئے لکھا ہے : اس کے بعد خارجی آئے اور انہوں نے مسلمانوں کا بیت المال لوٹ لیا ۔ اس بیت المال میں ڈھیروں چیزیں تھیں ۔
[البدایہ والنھایہ : 7/202]
راجح رائے:
خارجیوں کی نشاۃ اُولیٰ کے بارے میں باوجود اس کے کہ : عبد الله بن ذوالخويصره تمىمي کے درمیان اور ان ہنگامہ کرنے والوں(دہشت گردوں)کے درمیان ایک مضبوط تعلق پا یا جا تا ہے کہ جنھوں نے سيدنا عثمان بن عفان رضی الله عنہ کے خلاف خروج کیا تھا اور ان خوارج کے درمیان کہ جنھوں نے فیصلے کا اختیار صرف اللہ عز وجل کی ذات اقدس کو ہی دینے کا نظر یہ اختیار کیا تھا (کہ اللہ تعالی اپنے عرش سے زمین پر نزول فرما کر بندوں کے درمیان فیصلے کرے ) اس سبب کی بنا پر انھوں نے سیدنا علی بن ابو طالب رضی الله عنہ کے خلاف خروج کیا تھا ۔ ۔ ۔ ۔
زیادہ راجح رائے یہ ہے کہ : اپنے دقیق معنی میں “خوارج “ کی اصطلاح کا اطلاق صرف سیدنا علی رضی الله عنہ کے خلاف تحکیم سبب خروج کر نے والوں پر ہوگا ۔ اس حکم میں کہ ایک بہت بڑے گروہ کی صورت میں وہ ایک جماعت تھے کہ جس کا ایک سیاسی رخ تھا۔ ان کی خاص آراء اور نظریات تھے کہ جس نے با قاعدہ ایک عقیدہ کےطور پر فکری اثر چھوڑا تھا جو آج تک موجود ہے۔
[ العواجی کی “الفرق المعاصرۃ” 1/67 اور عبد الحمیدکی ” خلافت علی رضی اللہ عنہ ” ص 269 ]
0 Comments:
Post a Comment
Subscribe to Post Comments [Atom]
<< Home