سلفی منہج میں جماعت کو لازم پکڑنا اور حکمرانوں کی سماع واطاعت کرنا – شیخ محمد بن عمر بازمول
شیخ محمد بن عمر بازمول
حفطہ اللہ فرماتے ہیں:
رسول اللہ صلی اللہ علیہ
وآلہ وسلم نے حکمرانوں کی اطاعت کو ایک عظیم معاملہ قرار دیا۔ پس آپ صلی اللہ علیہ
وآلہ وسلم نے جہنم کے دروازوں پر دعوت دینے والے داعیوں سے نجات کی سبیل مسلمانوں
کی جماعت اور ان کے امام کو لازم پکڑنے کو قرار دیا۔
بسر بن عبید الحضرمی
سے روایت ہے کہ انہیں ابوادریس الخولانی نے حدیث بیان کی کہ انہوں نے سیدناحذیفہ
بن یمان رضی اللہ عنہ کو فرماتے ہوئے سنا:
’’كَانَ النَّاسُ
يَسْأَلُونَ رَسُولَ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم عَنِ الْخَيْرِ وَكُنْتُ
أَسْأَلُهُ عَنِ الشَّرِّ مَخَافَةَ أَنْ يُدْرِكَنِي، فَقُلْتُ: يَا رَسُولَ
اللَّهِ إِنَّا كُنَّا فِي جَاهِلِيَّةٍ وَشَرٍّ فَجَاءَنَا اللَّهُ بِهَذَا
الْخَيْرِ فَهَلْ بَعْدَ هَذَا الْخَيْرِ مِنْ شَرٍّ، قَالَ: نَعَمْ، قُلْتُ:
وَهَلْ بَعْدَ ذَلِكَ الشَّرِّ مِنْ خَيْرٍ؟ قَالَ: نَعَمْ وَفِيهِ دَخَنٌ، قُلْتُ:
وَمَا دَخَنُهُ؟، قَالَ: قَوْمٌ يَهْدُونَ بِغَيْرِ هَدْيِي تَعْرِفُ مِنْهُمْ
وَتُنْكِرُ، قُلْتُ: فَهَلْ بَعْدَ ذَلِكَ الْخَيْرِ مِنْ شَرٍّ؟ قَالَ: نَعَمْ
دُعَاةٌ إِلَى أَبْوَابِ جَهَنَّمَ مَنْ أَجَابَهُمْ إِلَيْهَا قَذَفُوهُ فِيهَا،
قُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ صِفْهُمْ لَنَا، فَقَالَ: هُمْ مِنْ جِلْدَتِنَا
وَيَتَكَلَّمُونَ بِأَلْسِنَتِنَا، قُلْتُ: فَمَا تَأْمُرُنِي إِنْ أَدْرَكَنِي
ذَلِكَ، قَالَ: تَلْزَمُ جَمَاعَةَ الْمُسْلِمِينَ وَإِمَامَهُمْ، قُلْتُ: فَإِنْ
لَمْ يَكُنْ لَهُمْ جَمَاعَةٌ وَلَا إِمَامٌ؟ قَالَ: فَاعْتَزِلْ تِلْكَ الْفِرَقَ
كُلَّهَا وَلَوْ أَنْ تَعَضَّ بِأَصْلِ شَجَرَةٍ حَتَّى يُدْرِكَكَ الْمَوْتُ
وَأَنْتَ عَلَى ذَلِكَ‘‘([1])
(لوگ رسول اللہ صلی اللہ
علیہ وآلہ وسلم سے خیرکی بابت سوال کیا کرتے تھے جبکہ میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ
وسلم سے شر کے متعلق دریافت کیا کرتا تھا، اس خوف سے کہ کہیں میں اس میں مبتلا نہ
ہوجاؤ۔ چناچہ میں نے پوچھا اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہم جاہلیت اور
شر میں تھے پس اللہ تعالی ہمارے لیے یہ خیر لے آیا ، تو کیا اس خیر کے بعد
بھی کوئی شر ہوگا؟ آپ نے فرمایا: ہاں۔ میں نے پوچھا کہ کیا اس شر کے بعد پھر سے
خیر ہوگا؟ آپ نے فرمایا: ہاں لیکن اس میں دخن (دھبہ) (دلوں میں میل) بھی
ہوگا۔ میں نے پوچھا: اس کا دخن کیا ہوگا؟ فرمایا: ایسی قوم ہوگی جو میرے طریقے کے
علاوہ کسی اور طریقے کو اپنا لیں گے، ان کی کچھ باتیں تمہیں بھلی معلوم ہوں گی اور
کچھ منکر۔ میں نے کہا کہ کیا اس خیر کے بعد بھی کوئی شر ہوگا؟ فرمایا: ہاں،
ایسے داعیان ہوں گے جو جہنم کے دروازوں کی طرف دعوت دیں گےجو ان کی دعوت قبول کرلے
گا وہ اسے جہنم واصل کروادیں گے۔ میں نے کہا اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ
وسلم ہمارے لیے ان کے اوصاف بیان کریں؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: وہ
ہماری ہی قوم میں سے ہوں گے اور ہماری ہی زبان بولتے ہوں گے([2])۔ میں نے کہا: آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مجھے کیا
حکم دیتے ہیں اگر میں انہیں پالوں؟ فرمایا: تم مسلمانوں کی جماعت اور ان کے امام
کو لازم پکڑو۔ میں نے کہا: اگر ان کی کوئی جماعت ہی نہ ہو اور نہ ہی امام؟
فرمایا: تو پھر ان تمام فرقوں سے علیحدہ ہوجانا اگرچہ تجھے درخت کی جڑیں چبا کر ہی
گزارا کیوں نہ کرنا پڑے یہاں تک کہ تجھے اسی حال میں موت آجائے)۔
بلکہ اس حدیث کی ایک روایت
میں آیا ہے کہ حکمران کی سماع واطاعت کرو اگرچہ وہ تمہارا مال چھین لے اور تمہاری
کمر پر کوڑے مارے۔
جناب ابی سلام فرماتے ہیں
کہ سیدنا حذیفہ بن یمانرضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ میں نے کہا:
’’يَا رَسُولَ اللَّهِ،
إِنَّا كُنَّا بِشَرٍّ فَجَاءَ اللَّهُ بِخَيْرٍ فَنَحْنُ فِيهِ، فَهَلْ مِنْ
وَرَاءِ هَذَا الْخَيْرِ شَرٌّ؟، قَالَ: نَعَمْ، قُلْتُ: هَلْ وَرَاءَ ذَلِكَ
الشَّرِّ خَيْرٌ؟، قَالَ: نَعَمْ، قُلْتُ: فَهَلْ وَرَاءَ ذَلِكَ الْخَيْرِ
شَرٌّ؟، قَالَ: نَعَمْ، قُلْتُ: كَيْفَ؟، قَالَ: يَكُونُ بَعْدِي أَئِمَّةٌ لَا
يَهْتَدُونَ بِهُدَايَ، وَلَا يَسْتَنُّونَ بِسُنَّتِي، وَسَيَقُومُ فِيهِمْ
رِجَالٌ قُلُوبُهُمْ قُلُوبُ الشَّيَاطِينِ فِي جُثْمَانِ إِنْسٍ، قَالَ: قُلْتُ:
كَيْفَ أَصْنَعُ يَا رَسُولَ اللَّهِ، إِنْ أَدْرَكْتُ ذَلِكَ؟، قَالَ: تَسْمَعُ
وَتُطِيعُ لِلْأَمِيرِ، وَإِنْ ضُرِبَ ظَهْرُكَ، وَأُخِذَ مَالُكَ فَاسْمَعْ
وَأَطِعْ ‘‘([3])
( یارسول اللہ صلی اللہ
علیہ وآلہ وسلم ہم شر میں زندگی گزار رہے تھے کہ اللہ تعالی یہ خیر لے آیا اور ہم
اب اسی میں جی رہے ہیں ، پس کیا اس خیر کے بعد بھی کوئی شر ہوگا؟ آپ صلی اللہ علیہ
وآلہ وسلم نے فرمایا: ہاں ۔ میں نے کہا: کیا اس شر کے بعد خیر ہوگا؟ فرمایا: ہاں۔
میں پھر کہا کہ: کیا اس خیر کے بعد دوبارہ سے شر ہوگا؟ فرمایا: ہاں۔ میں نے کہا:
کیسا ہوگا؟ فرمایا: میرے بعد ایسے آئمہ آئیں گے جو میری ہدایت پر نہیں چلتے ہوں گے
اور نہ ہی میری سنت کی پیروی کریں گے، اور عنقریب ان میں ایسے انسان کھڑے ہوں گے
جن کے جسم انسانوں کے ہوں گے لیکن دل شیاطین کے دل ہوں گے۔ میں نے کہا: اے اللہ کے
رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اگر میں ایسے حالات پالوں تو کیا کروں؟ فرمایا: اپنے
امیر (حکمران) کی بات سننا اور اطاعت کرنا اگرچہ تیری کمر پر کوڑے مارے جائیں اور
تیرا مال چھین لیا جائے، تو سننا اور اطاعت کرنا)۔
مزید تفصیل کے لیے مکمل
مقالا پڑھیں ۔ ۔ ۔
[2] یہاں آپ گمراہی کی طرف دعوت
دینے والے داعیان کی صفت پر ذرا ٹھہر کر غور کریں، جبکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ
وآلہ وسلم ایسے لوگوں کی کثرت کی حالت میں جماعت کو لازم پکڑنے کی دعوت دے رہے
ہیں، پس یہی ان لوگوں کے فتنے سے بچنے کی سبیل نجات ہے۔ ناکہ حکمرانوں کی تکفیر
کرنا یا ان پر خروج کرنا اورعوام کے دل ان کے خلاف بغض وعدوات سے بھرنا۔
February
16, 2016 | الشيخ محمد بن عمر بازمول, عقیدہ ومنہج, مقالات |
0 Comments:
Post a Comment
Subscribe to Post Comments [Atom]
<< Home