Friday, February 12, 2016

مجلہ ’محدث

مجلہ ’محدث‘ میں ایسے محدثین کے تعارف او رخدمات کا سلسلہ شروع کیا جارہا ہے جنہوں نے علم حدیث میں غیرمعمولی اور کثیر الجہت خدما ت انجام دی ہیں۔صحاحِ ستہ کے مؤلفین کے علاوہ ایسے محدثین جنہوں   نے ایک سے زیادہ کتبِ حدیث تالیف کی ہیں،ان کتب کا اُسلوب اور خصوصیات کیا ہیں؟ اور ان سے کس طرح استفادہ کیا جاسکتاہے؟ ...ان مضامین میں یہ تفصیلات پیش کی جائیں گی۔ان شاء اللّٰہ                           ادارہ
اللّٰہ تعالیٰ نے اپنے برگزیدہ بندوں سے اپنے دین حنیف کی خدمت کا کام لیا اور بعض کو اپنے دین کے لئے خاص کر لیا جن کی زندگی کا اوڑھنا بچھونا قرآن وحدیث کو عام کرنا تھا ۔اُنھی چنیدہ افراد میں سے ایک ہمارے ممدوح امام طبرانی﷫ بھی ہیں۔ ان کے حالات اور ان کی کتب حدیث کا تعارف واُسلوب (منہج )پیش خدمت ہے ۔امام طبرانی﷫ کے حالات کے لیے تاریخ اصبہان ،جزء فیہ ذکر الامام الطبرانی ،سیر اعلام النبلاء، تذکرۃ الحفاظ اورالمعجم الصغیر وغیرہ سے استفادہ کیا گیا ہے۔
مکمل نام :ابوالقا سم سلیمان بن احمد بن ایوب بن مطیر                   تاریخ پیدائش : صفر ۲۶۰ھ [1]
جائے پیدائش:آپ   شام کے قصبہ عکاء میں پیدا ہوئے۔ امام طبرانی﷫ خود لکھتے ہیں :
((حدثنا أحمد بن عبد الله اللحیاني العکاوي، بمدینة عکاء سنة خمس وسبعین ومئتین)) (حدیث نمبر:۸۳۹)
اس سے ثابت ہوا کہ امام طبرانی پندرہ سال کی عمر میں سماعِ حدیث کر چکے تھے کیونکہ امام صاحب کی تاریخ ولادت 2۶۰ ھ ہے۔ 275ھ میں آپ کی عمر 15 سال ہوئی، آپ کی کل عمر ۱۰۰ سال تھی ۔نیز اس سے حافظ ذہبی کی بات کی تائید بھی ہوتی ہے کہ آپ عکاء میں پیدا ہوئے اور عموماً ۱۵ سا ل تک انسان اپنے شہر کے شیوخ سے ہی علم حاصل کرتا ہے ۔
یہ بھی ثابت ہوا کہ عکاء بستی نہیں بلکہ شہر ہے ۔ عکاء سے طبریہ کی مسافت دو دن میں طے ہوتی تھی ،یہ اُردن کے قریب واقع ہے۔ عمر کا اکثر حصّہ آپ یہاں ہی رہے لیکن آخر عمر میں آپ نے اصفہان میں مستقل سکونت اختیار کی۔ یاد رہے کہ امام طبرانی ’طبر یہ‘ کی طر ف منسوب ہیں، طبرستان کی طرف نہیں جبکہ مشہور مؤرخ ابن جریر طبری طبرستان سے نسبت رکھتے ہیں۔ [2]
اولاد: ایک بیٹا تھا جس کا نام محمد تھا جس کی کنیت ابوذر تھی اور ایک بیٹی جس کا نام فاطمہ تھا ۔[3]
اساتذہ و تلامذہ
          آپ نے ایک ہزار سے زیادہ شیوخ سے اُستفادہ کیا جن میں چند کے نام یہ ہیں: امام نسائی،امام ابو زرعہ دمشقی اور احمد بن معلی وغیرہ ۔ المعجم الصغیر میں تحقیق کے مطابق امام طبرانی نے بغداد کے ۶۲ شیوخ سے فائدہ اٹھایا ۔
آپ کے تلامذہ کی فہرست بھی خاصی طویل ہے، چند کے نام یہ ہیں: ابن عمید ،صاحب بن عباد۔ یہ دونوں اپنے دور کے وزیر بھی تھے ۔ان کے علاوہ محمد بن حسین بسطامی،ابن عقدہ،اور محمد بن احمد جارودی وغیرہ۔ابوالعباس احمد بن منصور کہتے ہیں میں نے طبرانی سے تین لاکھ حدیثیں سنی ہیں، اس سے ان کی وسعت ِروایت کا اندازہ ہوتا ہے۔
علمی اَسفار
امام طبرانی13 برس کے تھے کہ تحصیل علم میں میں مشغول ہو ئے، پہلے آپ نے اپنے آبائی وطن طبریہ میں اصحابِ علم و فضل سے استفادہ کیا ۔۲۷۴ھ میں بیت المقدس کی طرف سفر کیا اور وہاں کے محدثین سے فائدہ اُٹھایا۔پھر۲۷۵ھ میں قیساریہ تشریف لے گئے اس کے بعد اُنھوں نے حمص ،جبلہ،مدائن،شام،مکہ ،مدینہ،یمن ،مصر ،بغداد،کوفہ بصرہ ،جزیرہ ،فارس اور اصفہان وغیرہ کی طرف سفر کرکے اپنی علمی پیاس بجھائی۔[4]
امام طبرانی﷫ کے رحلاتِ علمیہ کی مختصر داستان اس طرح ہے :
۲۷۳ھ کو سماع حدیث شروع کیا، اس وقت آپ کی عمر ۱۳ سال تھی۔
۲۷۴ھ کو بیت المقدس کی طرف سفرکیا ،اسی سال رملہ گئے اور واپس عکا آئے ۔
275 ھ میں عکا میں سماع حدیث کیا۔
۲۷۷ھ میں طبریہ میں ٹھہرے ۔
۲۷۸ھ میں مدائن کی طرف متوجہ ہوئے اورحمص ،حلب، طرطوس ،سنجار ،مِصّیصہ پہنچے۔
۲۷۹ھ میں جَبَلہ پہنچے اور اسی سال دمشق گئے۔
۲۸۰ ھ میں آپ مصر گئے ۔
۲۸۲ھ میں آپ نے سمندری سفر کیااور یمن کے علاقے شبام پہنچے ۔
۲۸۳ھ کو آپ نے حج کیا، مکہ اور مدینہ کے محدثین سے فائدہ اٹھایا۔
۲۸۴ھ کو آپ یمن کے علاقے صنعاء پہنچے ۔
۲۸۵ھ کو آپ مصر پہنچے،287ھ میں بغداد آئے، ۲۸۸ھ تک وہاں کے محدثین سے علم حاصل کیا۔
آپ کی عمر ۳۳ سال ہو گئی اور ۲۹۰ھ کو آپ اصفہان پہنچے۔پھر فارس کا سفر کیا ۔
۳۱۰ھ یا ۳۱۱ کو پھر آپ واپس اصفہان آئے اور اسی کو اپنا مسکن بنالیا اور۳۶۰ھ یعنی وفات تک یہاں ٹھہرے ۔
المعجم الصغیر سے امام طبر انی کے علمی سفر پر روشنی پڑتی ہے، جس میں ان شہروں میں ان کے اساتذہ کے ناموں کا بھی علم ہوتا ہے ۔اس کے لیے ان احادیث   کی اسناد کا ترتیب وار مطالعہ کریں۔5، 209، 98، 659، 18، 7، 1101، 10، 8، 4،2، 1، 975، 680، 952، 213، 652، 222، 1100، 216، 101، 211، 1014، 763، 61، 655، 245، 697، 911
محدثین کے ہاں مقام و مرتبہ
          امام موصوف اپنے دور کے عظیم محدثین کی آنکھوں کا تارہ تھے ۔معاصرین اور متاخرین ان کی تعریف میں رطب اللسان نظرآتے ہیں ۔چند ایک کی گواہیاں پیش خدمت ہیں:
ابراہیم بن محمد بن حمزہ نے کہا :میں نے ان سے بڑا کوئی حافظ نہیں دیکھا ۔
حافظ ذہبی فرماتے ہیں کہ وہ :ضبط و ثقاہت اور صدق وامانت کے ساتھ بڑے عظیم رتبہ پر فائز اور عالی شان محدث تھے ۔اور ذہبی نے ہی انھیں الامام العلامہ ،اور مسند الدنیا کہا ہے۔ ابن عماد نے انھیں مسند العصر کہا۔[5]
امام طبرانی﷫ حافظ ذہبی کی نظر میں
حافظ ذہبی ﷫ لکھتے ہیں :
هوالإمام الحافظ الثقة الرحال الجوال محدث الإسلام علم المعمرین[6]
حافظ ذہبی کی تحقیق کے مطابق امام طبرانی﷫ نے عالم اسلام کے محدثین سے سولہ سال میں علم حاصل کیا ،جبکہ راقم نے جب تتبع کیا تو المعجم الصغیر سے جو امام طبرانی﷫ نے مختلف محدثین سے روایت بیان کرتے وقت خود تاریخیں لکھی ہیں ان میں سے آخری تاریخ ۲۹۵ھ ہے۔ آپ نے اصفہان میں اپنے شیخ محمد بن اسد اصبہانی سے روایت کیا۔[7]اور حافظ ذہبی کے مطابق انھوں نے سماعِ حدیث کی ابتدا۲۷۳ھ کو کی اور باقاعدہ سفر ۲۷۵ھ کو شروع کیا ، حالانکہ ۲۷۴ھ کو انھوں نے بیت المقدس میں سماع حدیث کیا۔[8]اگر ۲۷۵سے ابتدا اور ۲۹۵ھ کو رحلۃ علمیہ کا اختتام لیں تو بیس سال بنتے ہیں نہ کہ سولہ ۔یہاں یہ بھی یاد رہے کہ انھوں نے ۲۷۴ھ میں بیت المقدس کے اساتذہ ؍شیوخ سے احادیث لی تھیں جو تین شیوخ ہیں :احمد بن مسعودالخیاط [9]،احمد بن عبیدبن اسماعیل الفریابی[10]، عبداللّٰہ بن محمد بن مسلم الفریابی[11]
ا مام ابن مندہ اور حافظ ذہبی کی تحقیق کے مطابق امام طبرانی نے اپنا وطن اصفہان کو بنایا اور ساٹھ سال وہاں ٹھہرے۔[12] واللّٰہ اعلم۔آپ ۲۹۰ ھ میں پہلی دفعہ اصفہان آئے،پھر فارس کاسفر کیا ،پھر ۳۱۰ھ یا ۳۱۱ کو دوبارہ اصفہان آئے۔ [13] ا مام ابن مندہ کی تحقیق کے مطابق امام طبرانی ایک دفعہ اصفہان آئے تھے، پھر چلے گئے اور چودہ سال بعد پھر اصفہان آئے۔ [14]
ا ما م ابن مندہ نے امام طبرانی﷫ کے مستند حالات پر ایک رسالہ لکھا  جس میں لکھتے ہیں کہ
’’اللّٰہ تعالیٰ نے اہل اصفہان پر فضل اور احسان کیا کہ ان میں امام طبرانی جیسے عظیم محدث کو رہنے کی توفیق عطافرمائی ۔‘‘[15]
تصنیفات
المعجم الْكَبِير(200 جلدیں)                                                             المُعْجم الْأَوْسَط (24 جلدیں)
المُعْجم الصَّغِير(7جلدیں)                                                               مُسْند الْعشْرَة(30جلدیں)
مُسْند الشاميين(10جلد)                                                 كتاب النَّوَادِر (10جلدیں)
كتاب معرفَة الصَّحَابَة                                                  الْفَوَائِد (10جلدیں)
مُسْند أبي هُرَيْرَة ﷜                                                       مُسْند عَائِشَة رَضِي الله عَنْهَا
مُسْند أبي ذَر الْغِفَارِيّ (2جلدیں)                                    كتاب التَّفْسِير
كتاب مسانيد تَفْسِير بكر بن سهل                             كتاب دَلَائِل النُّبُوَّة (10جلدیں)
كتاب الدُّعَاء (10جلدیں)                                                                كتاب السّنة (10جلدیں)
كتاب الطوالات (3جلدیں)                                            كتاب الْعلم
كتاب وَصِيَّة النَّبِي ﷺ                                                  وَصِيَّة النَّبِي لأبي هُرَيْرَة
كتاب ذكر الْخلَافَة لأبي بكر وَعمر                             كتاب جَامع صِفَات النَّبِي ﷺ
كتاب فَضَائِل الْعَرَب وَعُثْمَان وَعلي                            مقتل الْحُسَيْن بن عَليّ ﷜
كتاب نسب النَّبِي ﷺ وَصفَة الْخُلَفَاء    كتاب انسابهم واسمائهم وَكُنَاهُمْ
امام طبرانی کی تصانیف سو سے زائد ہیں جن میں فضائل، مسانید اور فقہی موضوعات پر احادیث کو جمع کیا گیا ہے۔امام صاحب اپنی زندگی میں مرجع خلائق تھے اور وفات کے بعد ان کی کتب مرجع ثابت ہوئیں۔ امام طبرانی کی زندگی میں یا ان کی وفات کے بعد سے لے کر اب تک جو بھی کام حدیث او رعلوم حدیث پر ہو رہے ہیں کوئی کتاب ایسی نہیں جس میں امام الدنیا امام طبرانی کا ذکر خیر نہ ہو۔آپ جو کتبِ حدیث ،کتبِ رجال ، کتبِ علل ،کتب ِ علوم حدیث ، کتبِ تخریج ،کتب شروح حدیث اورکتب ِتفسیر اٹھائیں، سب میں امام طبرانی کا ذکر ضرور ملتا ہے۔
وفات کا سبب
          آپ بڑے غیرت مند انسان تھے، دین پر کسی سے کوئی سمجھوتہ نہیں کرتے تھے بلکہ دوٹوک انداز میں قرآن وحدیث کی ترجمانی کرتے تھے۔یہی دینی حمیت بعض فرقِ باطلہ کو اچھی نہ لگی اور انھوں نے آپ پر جادو کروا دیا جس سے آپ کی آنکھوں کی بصارت جا تی رہی اور آپ نے بروز شنبہ ۲۸ ذوالحجہ ۳۶۰ھ کو سوسال کی عمر میں وفات پائی ۔آپکی نمازِ جنازہ امام ابونعیم اصبہانی ﷫ نے پڑھائی اور صحابی رسول       حممہ بن حممہ   ﷜ کی قبر کے پہلو میں دفن ہوئے ۔[16]
ا مام طبرانی ۳۶۰ھ بروز ہفتہ فوت ہوئے اور اتوار کو ’جی‘ شہر کے دروازے المعروف بتیرہ   دفن ہوئے ۔ [17]
امام طبرانی کی تالیفاتِ حدیث اور ان کا اُسلوب
محدثین کی اصطلاح میں مُعجَم ان کتابوں کو کہا جا تا ہے جن میں شیوخ کی تر تیب پر حدیثیں درج کی گئی ہیں۔
المعجَم الکبیر : اس میں صحابہ کرام ﷢ کی تر تیب پر ان کی مرویات شامل کی گئی ہیں ۔اور اس میں مشہور صحابی حضرت ابو ہریرہ﷜ (م57ھ) جن کی مرویات کی تعداد 5364ہے، اس میں شامل نہیں ہیں۔ یہ کتاب 12جلدوں میں ہے اور اس میں 60ہزار احادیث جمع کی گئی ہیں ۔
المعجم الأوسط : اس کتاب کو بھی امام طبرانیؒ نے شیوخ کے ناموں پر مرتب کیا ہے، اس کی ترتیب و تالیف میں امام صاحب نے بڑی کا وش اور محنت کی۔ آپ کو یہ کتاب بہت عزیز تھی، اس کتاب سے امام صاحب کی حدیث میں فضیلت و کمال اور احادیث سے کثرتِ واقفیت کا پتہ چلتا ہے۔ یہ کتاب 6ضخیم جلدوں میں ہے۔
یہ معجم شیوخ کے اعتبار سے ہے۔ ہر شیخ سے امام طبرانی عجیب وغریب روایات لائے ہیں۔یہ دارقطنی کی ’الافراد ‘کی مثل ہے ،امام طبرانی اس کتاب کے متعلق کہا کرتے تھے کہ اس میں میری روح ہے، یعنی یہ کتاب انھیں بہت ہی پسندتھی ۔
یہ کتاب گم شدہ کتب میں سے تھی لیکن اللّٰہ تعالیٰ نے اس کا مکمل قلمی نسخہ ترکی سے میسر فرما دیا۔ اس عظیم کتاب کو منظر عام پر لانے کا کریڈٹ اللّٰہ تعالیٰ کی توفیق و نصرت کے بعد سید صبحی بدری سامرائی کو جاتا ہے ،جزاہ اللّٰہ خیرًا۔اس کی سب سے پہلے تحقیق ڈاکٹر محمود طحان نے تحقیق کی اور تین جلدیں شائع کیں اورباقی کا وعدہ کیا۔ لیکن وہی ہوتا ہے جو اللّٰہ تعالیٰ کو منظور ہو، باقی اجزا کی وہ تحقیق نہ کر سکے اور جن تین اجزا کی تحقیق کی تھی، اس کو بھی محققین اور اہل علم نے زیادہ پسند نہ کیا کیو نکہ اس میں بہت زیادہ تحریف ،تصحیف اور سقط رہ گیا تھا حالانکہ اس طرح کی کمزوریوں سے کتاب کو منزہ ہو نا چاہئے اور ہر صاحب علم جانتا ہے کہ ان مذکورہ خامیوں کا کتاب کے نقائص میں کتنا عمل دخل ہے ۔پھر اللّٰہ تعالیٰ جزائے خیر عطافرمائے محدث العصر ابواسحٰق الحوینی﷾ کو کہ انھوں نے فضیلۃ الشیخ محقق طارق بن عو ض اللّٰہ مصری ﷾ کو توجہ دلائی کہ آپ المعجم الاوسط پر کام کریں، پھر طارق بن عوض اللّٰہ کی نگرانی میں ایک ٹیم نے اس کتاب پر محنت کی اورتحقیق کا حق ادا کردیا ۔
امام طبرانی﷫ نے علم کے حصول میں مسلسل بیس سال محنت کی اور علم کی شاہراہ پر چل کر غرائب ،افراد اور فوائد جمع کئے ۔ المعجم الاوسط کا مقام و مرتبہ بجا ہے ۔شیخ ابو اسحٰق الحوینی﷾ نے اس پر کچھ تعاقب عوذ الجاني بتسدید الأوهام الواقعة في أوسط الطبراني کے نام سے کیا ہے جو لائق مطالعہ ہے ۔
منہج کتاب:امام طبرانی﷫ کی عظیم الشان فوائد پر مشتمل یہ کتاب ہے، اس میں انھوں نے اپنے مشائخ کی وہ تمام مرویات جمع کر دی ہیں جو خود سنی ہیں ۔شیوخ کی ترتیب حروف تہجی والی قائم کی ہے ۔اس کتاب میں درج ذیل منہج اختیار کیا گیا ہے :
a       امام طبرانی اپنی اس کتاب میں عجیب وغریب معلومات لکھتے ہیں جیساکہ
·  ایک راوی کے بارے میں ابومروان عثمانی کہتے ہیں کہ جب میں نے ان سے حدیث سنی اس وقت ان کی عمر ایک سو بارہ سال تھی۔ (حدیث نمبر:۱۰۳۶)
·  ابوعمرو زیاد بن طارق کے متعلق لکھا ہے کہ جب اُن سے عبیداللّٰہ بن رماحس نے بیان کیا تو اس وقت ان کی عمرایک سو بیس سال تھی ۔(حدیث نمبر:۴۶۳۰)
·  کثیر النوا٫ اپنے شیخ ابومریم انصاری کے بارے میں کہتے ہیں کہ جب میں نے ان سے حدیث بیان کی تواس وقت ان کی عمرایک سو پچاس سال تھی۔ (حدیث نمبر:۵۰۸۱)
b     امام طبرانی راوی کی نسبت کی وجہ تسمیہ بھی لکھتے ہیں۔مثلاً ایک راوی ابومالک الصفی ہیں ۔ان کو الصفی کہنے کی وجہ تسمیہ یہ بتاتے ہیں کہ ابوبکر بن صدقہ نے کہا کہ اُنھوں نے بصرہ مسجد میں پچاس سال تک پہلی صف میں نماز کی پابندی کی۔ (حدیث:۱۳۷۴)
c     اسی طرح امام طبرانی﷫ جب بھی کسی شیخ کی احادیث کو شروع کرتے ہیں تو اس کا مفصل نام لکھتے ہیں، پھر اس کے نام،والد اور نسبت کو بیان کرتے ہیں۔(حدیث:۳)،اور بعض دفعہ صرف شیخ کے نام پر ہی اکتفا کرتے ہیں۔ (حدیث:۳۱)
مثلاً پہلی روایت اس طرح ذکر کرتے ہیں:
حدثنا أحمد بن عبد الوهاب بن نجده الحوطي
بعد میں صرف احمد بن عبدالوہاب پر اکتفا کرتے ہیں اور کبھی صرف احمد کو کافی سمجھتے ہیں ۔
المعجم الصغیر اور اس کا اُسلوب
اس کی ترتیب بھی شیوخ کے ناموں پر ہے اور اس میں ایک ہزار سے زیادہ شیوخ کی ایک ایک حدیث جمع کی ہے۔ یہ 1311ھ میں مطبع انصاری دہلی سے شائع ہوئی۔
a       اما م طبرانی﷫ ہر روایت کے آخر میں تفرد کی وضاحت ضرور کرتے ہیں مثلا ً تفرد به معلی بن عبدالرحمٰن اور تمام احادیث کے آخر میں اسطرح کی وضاحتیں موجود ہیں۔ تاہم بعض احادیث کے آخر میں تفرد کی وضاحت نہیں، مثلاً دیکھئے حدیث:۷۱۲،۱۴۴
امام طبرانی﷫ کے اس انداز پر محدث العصر ابواسحاق الحوینی ﷾ نے تنقید کی ہے اور اپنی ۱۹ جلدوں کی لاجواب کتاب" تنبیه الهاجد إلى ما وقع من النظر في کتب إلا ماجد" میں اس کو تنقید کا نشانہ بنایا ہے اور تفرد کے وہم کو زائل کرتے ہوئے مزید اس کے توابع لکھے ہیں۔ اس کتاب کے مطالعہ سے قاری شیخ الحوینی﷾ کی سندِ حدیث پر دقت نظر کا اعتراف کئے بغیر نہیں رہ سکے گا۔ واضح رہے کہ بعض عرب علما شیخ الحوینی ﷾ کے اس نقطہ نظر سے کلی اتفاق نہیں کرتے ۔
b     امام طبرانی﷫ بعض احادیث پر صحت و ضعف کے لحاظ سے حکم لگاتے ہیں، مثلاً ایک حدیث کی دو سندیں بیان کرنے کے بعدلکھتے ہیں: "وهما صحیحان" (بعدحدیث:۱۷۵)
c     امام طبرانی﷫کبھی کبھی کنیت سے معروف راویوں کے اصل نام بھی لکھتے ہیں بلکہ بسا اوقات اس کے اصل نام کے ثبوت کے لئے اس کو با سند پیش کرتے ہیں مثلاً مشہور صحابی ابوثعلبہ خشنی ﷜ کے اصل نام کی وضاحت کے لئے سند لکھتے ہیں:
حدثنا أبو زرعة عبد الرحمٰن بن عمرو الدمشقي، حدثنا حیوة بن شریح، قال سمعت بقیة بن الولید، یقول اسم أبي ثعلبة الخشنی: لاشومة بن جرثومة. (بعد حدیث:۱۷۰)
d     امام طبرانی﷫ اپنے شیوخ کا مکمل نام لکھنے کی کوشش کرتے ہیں تاکہ محقق اور قاری کسی وہم میں مبتلا نہ ہو جائے۔ اس سے بھی امام طبرانی﷫ کی احتیاط کا اندازہ ہوتا ہے کہ وہ جس بھی شیخ سے حدیث لیتے، اس کا مکمل نام تفصیل کے ساتھ ضرور لکھتے ،لکھنے کے بعد اس کو محفوظ رکھتے ۔ایک جگہ لکھتے ہیں :
حدثنا محمد بن عبد الرحیم بن بحیر بن عبد الله بن معاویة بن بحیر بن ریشان الحمیری            (حدیث:۹۷۳)
e     امام طبرانی﷫ بسا اوقات اپنے شیخ سے جس شہر میں روایت سنتے ہیں، اس کی وضاحت بھی کرتے ہیں مثلاً لکھتے ہیں: حدثنا یحیٰی بن محمد الجباني البصری، ببغداد (حدیث:۱۷۴)
ایک جگہ لکھتے ہیں: حدثنا إبراهیم بن موسی النوری، ببغداد (حدیث:۳۴۰)
f     امام طبرانی﷫ بسا اوقات یہ بھی بتاتے ہیں کہ میں نے یہ حدیث اپنے شیخ سے کس سال سنی ۔اس سے امام طبرانی کے حالاتِ زندگی کی وضاحت ہوتی ہے کہ کس سال وہ کہاں تھے؟ بعض اوقات اس سے بڑی اہم باتوں کا علم ہوتا ۔ امام طبرانی ﷫ لکھتے ہیں :
((حدثنا أحمد بن عبد الله اللحیاني العکاوي، بمدینة عکاء سنة خمس وسبعین ومئتین)) (حدیث:۸۳۹)
اس سے پتہ چلتا ہے کہ امام طبرانی﷫ پندرہ سال کی عمر میں سماع حدیث کر چکے تھے اور کتابت حدیث میں آپ کے اہتمام واحتیاط کا بھی پتہ چلتا ہے ۔یہ بھی علم ہوتا ہے کہ آپ عکاء میں پیدا ہوئے ۔اور عکاء بستی کے بجائے ایک شہر کا نام ہے۔
g     امام صاحب روایت حدیث کے بعد في كتابهکی وضاحت بھی کرتے ہیں جس کا مطلب ہے کہ شیخ نے اس حدیث کو اپنی کتاب سے بیان کیا تھا ۔ مثلا لکھتے ہیں :
حدثنا إبراهیم بن إسحق الحربي في کتابه (حدیث:۹۲۰)
h     امام ﷫ بسا اوقات مختلف فیہ مسائل میں بھی اپنے رائے کا اظہار کرتے ہیں مثلاً ایک حدیث ہے کہ رسول اللّٰہ ﷺ نے فرمایا :اے بنی عبدِمناف ،اے بنی عبدمطلب !اگر تم اس معاملہ کے ذمہ دار بنو تو خانہ کعبہ کا طواف کرنے والے کسی بھی شخص کو رات اور دن کے کسی بھی حصے میں نماز پڑھنے سے منع نہ کرنا۔امام طبرانی اس حدیث میں بیان کئے گئے فقہی مسئلہ کے متعلق لکھتے ہیں:
یعني الرکعتین بعد الطواف السبع أن یصلى بعد صلاة الصبح قبل طلوع الشمس وبعد صلاة العصر قبل غروب الشمس وفي کل النهار.            (حدیث:۱۸۴)
’’آپ ﷺ کی مراد سات چکر طواف کے بعد کی دو رکعتوں سے ہے کہ وہ فجر کی نماز کے بعد طلوع آفتاب سے پہلے اور عصر کی نماز کے بعد غروب سے پہلے اور اسی طرح دن کے ہر حصہ میں پڑھی جا سکتی ہیں ۔‘‘
i     بعض دفعہ شبہات کا بھی ازالہ کرتے ہیں ،ایک حدیث کے بعد لوگوں کا شبہ ذکر کرتے ہیں کہ ’’ہم لوگ دعائیں کرتے ہیں مگر وہ قبول نہیں ہوتیں ۔‘‘پھر اس کا جواب دیتے ہوئے لکھتے ہیں کہ :گویا یہ اعتراض اللّٰہ تعالیٰ پر ہے کیونکہ اس نے خود فرمایا ہے اور یقیناً اس کی بات برحق ہے ،کیونکہ اللّٰہ تعالیٰ نے فرمایا:          ﴿ ادْعُوْنِيْۤ اَسْتَجِبْ لَكُمْ١ؕ﴾[18]
نیز فرمایا: ﴿وَ اِذَا سَاَلَكَ عِبَادِيْ عَنِّيْ فَاِنِّيْ قَرِيْبٌ١ؕ اُجِيْبُ دَعْوَةَ الدَّاعِ اِذَا دَعَانِ١ۙ ﴾ [19]
’’اور جب میرے بندے تم سے میرے متعلق پوچھیں تو انھیں بتا دو کہ میں ان کے نزدیک ہوں اور پکارنے والے کی پکار کا جواب دیتا ہوں ۔‘‘
پھر اس شبہ کے جواب میں ایک حدیث بھی لے کر آئے ہیں ۔[20]
j     امام طبرانی﷫ بعض احادیث کو اپنی دیگر کتب مثلا المعجم الکبیر یا المعجم الاوسط سے بیان کر دیتے ہیں مثلاً دیکھئے المعجم الکبیر کی احادیث
(الکبیر:ج۲۳؍ص۴۳۳،الصغیر:۵۹۳)               (الکبیر:ج۲۳؍ص۳۹۳،الصغیر:۵۷۳)
(الکبیر:ج۲۵ ؍ص۱۰۲،الصغیر:۴۹۸)                (المعجم الاوسط:۱۳۴۲،الصغیر:۷۵۵)
معاجم ثلاثہ کے اُسلوب کا موازنہ
المعجم الکبیر صحابہ کرام ﷢ کی ترتیب سے ان سے مروی احادیث جمع کی ہیں لیکن اس میں سیدنا ابوہریرہ ﷜کی مسند نہیں ہے ،کیونکہ وہ ان کی الگ مسند لکھنا چاہتے تھے ۔اسی طرح بکثرت روایت کرنے والے صحابہ کی تمام روایات کا احاطہ نہیں کیا۔صحابی کی روایات ذکر کرنے سے پہلے اس کے حالات باسند ذکر کئے ہیں۔ سیرتِ صحابہ ﷺ کی مستند؍ باسند کتاب المعجم الکبیر سے الگ کی جا سکتی ہے۔پھر ان سے مروی احادیث بیان کی ہیں ۔
جبکہ المعجم الاوسط میں شیوخ سے جتنی بھی مرویات ملیں ، وہ تمام بیان کر دی گئی ہیں ۔
المعجم الصغیر میں صرف ایک شیخ سے ایک ہی حد یث بیان کی ہے، دیکھیں (سیراعلام النبلا٫)
المعجم الاوسط میں اور المعجم الصغیر میں بعض رواۃ پر حکم بھی لگایا ہے لیکن المعجم الکبیر میں کسی راوی پر حکم نہیں لگایا ۔
المعجم الکبیر میں تفرّد کا ذکر نہیں کیا جبکہ الصغیر اور الاوسط دونوں میں تفرد کا ذکر کیا ہے۔
تینوں معاجم میں کچھ باتیں مشترک ہیں مثلاً
ہر بات با سند پیش کی ہے جبکہ مرفوع ،مو قوف اور مقطوع تینوں طرح کی روایات بیان کی ہیں اور ان میں صحیح بھی ہیں اور ضعیف بھی ۔
امام طبرانی کی دیگر کتب کا مختصر تعارف
مسند الشامیین   :اس کتاب میں صر ف ان صحابہ سے روایات بیان کی ہیں جو شام میں مقیم تھے اور شام کے بعض راویوں کے جر حِ تعدیل کے لحاظ سے حالات بھی باسند بیان ہوئے ہیں ۔
مسند الشامیین سے محدثین نے رواۃ کے حالات بھی بیان کیے ہیں مثلا الإکمال ازمحمد حسنی میں کافی جگہوں پر مسندا لشامیین کے حوالے سے جرح و تعدیل اور راویوں کے حالات بیان کئے گئے ہیں۔ مثلا ًا لاکمال:۱۱۱۸،۱۰۸۵
طرقِ حدیث من کذب علي:اس میں ۶۳ صحابہ ﷢ سے ایک ہی روایت «من کذب علي متعمدًا» کو مختلف ۱۷۸ سندوں کے ساتھ بیان کیا ہے ۔
کتاب الاوائل :اس کتاب میں امام طبرانی﷫ نے ان احادیث کا ذکر کیا ہے جن میں ہر معاملہ میں اولین کا ذکر ہے۔ مثلاً اللّٰہ تعالیٰ نے سب سے پہلے قلم پید اکیا وغیرہ
الاحادیث الطوال : امام طبرانی﷫ نے اس کتاب میں ان ۶۲احادیث کو جمع کیا ہے جو متن کے لحاظ سے مفصل اور لمبی ہیں ۔
امام طبرانی کا راویوں پر جرح و تعدیل کے اعتبار سے حکم لگانا
امام طبرانی﷫ بسا اوقات اپنی کتب میں بعض راویوں پر حکم بھی لگاتے ہیں ۔ اور اسے کبھی خود اور کبھی کسی معتبر محدث سے باسند نقل کرتے ہیں۔ مثلاً
ابراہیم بن ابی عبلہ               ثقہ                           ( مسند الشامیین :۷)
ثور بن یزید کلاعی                 ثقہ                           ( مسند الشامیین:۵۰۰)
شعیب بن ابی حمزہ                ثقہ ثبت    (مسند الشامیین :۲۹۲۹)
داود بن ابی القصاف              شیخ ثقہ      (الاوسط ح:۳۵۰۴)      
سیف بن عبیداللّٰہ               کان ثقہ     (‎الاوسط ح:۱۶۹۳)
عبداللّٰہ بن عبداللّٰہ ہدادی ثقہ                             (الاوسط ح:۷۵۴۴)
عبدالسلام بن ہاشم                ما اعلم الا خیراً              (الاوسط ح:۸۱۶۳)

[1]    تذکرۃالحفا ظ : ۲؍۱۲۶
[2]    تذکرۃ الحفاظ : ۳؍126
[3]    ایضاً
[4]    تذکرۃ الحفاظ: ۳؍۱۲۷
[5]    تذکرۃ الحفاظ : ۳؍۱۲۶ تا۱۳۰؛لسا ن المیزان: ۳؍۷۳
[6]    سیر اعلام النبلا ء :ج۱۶؍ص۱۱۹
[7]    المعجم الصغیر : رقم الحدیث۹۱۱
[8]    المعجم الصغیر:۵
[9]    المعجم الصغیر:۵
[10] المعجم الصغیر:۹۹
[11] المعجم الصغیر:۶۰۰
[12] سیر اعلام النبلا:ج۱۶؍ص۳
[13] سىر اعلام النبلا: ج16؍ص3
[14] جزء فیہ ذکر الامام الطبرانی:ص۲
[15] جزء فیہ ذکر الامام الطبرانی:ص۱
[16] تذکرۃ الحفاظ: ۳؍۱۳۰؛سير اعلام النبلاء :16؍119 تا130
[17] تاریخ اصبہان:ص۱۷۰
[18] سورۃ المؤمن :۶۰
[19] سورۃ البقرۃ:۱۸۶
[20] المعجم الصغیر :ص۲۱۶‘ میں ایسے محدثین کے تعارف او رخدمات کا سلسلہ شروع کیا جارہا ہے جنہوں نے علم حدیث میں غیرمعمولی اور کثیر الجہت خدما ت انجام دی ہیں۔صحاحِ ستہ کے مؤلفین کے علاوہ ایسے محدثین جنہوں   نے ایک سے زیادہ کتبِ حدیث تالیف کی ہیں،ان کتب کا اُسلوب اور خصوصیات کیا ہیں؟ اور ان سے کس طرح استفادہ کیا جاسکتاہے؟ ...ان مضامین میں یہ تفصیلات پیش کی جائیں گی۔ان شاء اللّٰہ                           ادارہ
اللّٰہ تعالیٰ نے اپنے برگزیدہ بندوں سے اپنے دین حنیف کی خدمت کا کام لیا اور بعض کو اپنے دین کے لئے خاص کر لیا جن کی زندگی کا اوڑھنا بچھونا قرآن وحدیث کو عام کرنا تھا ۔اُنھی چنیدہ افراد میں سے ایک ہمارے ممدوح امام طبرانی﷫ بھی ہیں۔ ان کے حالات اور ان کی کتب حدیث کا تعارف واُسلوب (منہج )پیش خدمت ہے ۔امام طبرانی﷫ کے حالات کے لیے تاریخ اصبہان ،جزء فیہ ذکر الامام الطبرانی ،سیر اعلام النبلاء، تذکرۃ الحفاظ اورالمعجم الصغیر وغیرہ سے استفادہ کیا گیا ہے۔
مکمل نام :ابوالقا سم سلیمان بن احمد بن ایوب بن مطیر                   تاریخ پیدائش : صفر ۲۶۰ھ [1]
جائے پیدائش:آپ   شام کے قصبہ عکاء میں پیدا ہوئے۔ امام طبرانی﷫ خود لکھتے ہیں :
((حدثنا أحمد بن عبد الله اللحیاني العکاوي، بمدینة عکاء سنة خمس وسبعین ومئتین)) (حدیث نمبر:۸۳۹)
اس سے ثابت ہوا کہ امام طبرانی پندرہ سال کی عمر میں سماعِ حدیث کر چکے تھے کیونکہ امام صاحب کی تاریخ ولادت 2۶۰ ھ ہے۔ 275ھ میں آپ کی عمر 15 سال ہوئی، آپ کی کل عمر ۱۰۰ سال تھی ۔نیز اس سے حافظ ذہبی کی بات کی تائید بھی ہوتی ہے کہ آپ عکاء میں پیدا ہوئے اور عموماً ۱۵ سا ل تک انسان اپنے شہر کے شیوخ سے ہی علم حاصل کرتا ہے ۔
یہ بھی ثابت ہوا کہ عکاء بستی نہیں بلکہ شہر ہے ۔ عکاء سے طبریہ کی مسافت دو دن میں طے ہوتی تھی ،یہ اُردن کے قریب واقع ہے۔ عمر کا اکثر حصّہ آپ یہاں ہی رہے لیکن آخر عمر میں آپ نے اصفہان میں مستقل سکونت اختیار کی۔ یاد رہے کہ امام طبرانی ’طبر یہ‘ کی طر ف منسوب ہیں، طبرستان کی طرف نہیں جبکہ مشہور مؤرخ ابن جریر طبری طبرستان سے نسبت رکھتے ہیں۔ [2]
اولاد: ایک بیٹا تھا جس کا نام محمد تھا جس کی کنیت ابوذر تھی اور ایک بیٹی جس کا نام فاطمہ تھا ۔[3]
اساتذہ و تلامذہ
          آپ نے ایک ہزار سے زیادہ شیوخ سے اُستفادہ کیا جن میں چند کے نام یہ ہیں: امام نسائی،امام ابو زرعہ دمشقی اور احمد بن معلی وغیرہ ۔ المعجم الصغیر میں تحقیق کے مطابق امام طبرانی نے بغداد کے ۶۲ شیوخ سے فائدہ اٹھایا ۔
آپ کے تلامذہ کی فہرست بھی خاصی طویل ہے، چند کے نام یہ ہیں: ابن عمید ،صاحب بن عباد۔ یہ دونوں اپنے دور کے وزیر بھی تھے ۔ان کے علاوہ محمد بن حسین بسطامی،ابن عقدہ،اور محمد بن احمد جارودی وغیرہ۔ابوالعباس احمد بن منصور کہتے ہیں میں نے طبرانی سے تین لاکھ حدیثیں سنی ہیں، اس سے ان کی وسعت ِروایت کا اندازہ ہوتا ہے۔
علمی اَسفار
امام طبرانی13 برس کے تھے کہ تحصیل علم میں میں مشغول ہو ئے، پہلے آپ نے اپنے آبائی وطن طبریہ میں اصحابِ علم و فضل سے استفادہ کیا ۔۲۷۴ھ میں بیت المقدس کی طرف سفر کیا اور وہاں کے محدثین سے فائدہ اُٹھایا۔پھر۲۷۵ھ میں قیساریہ تشریف لے گئے اس کے بعد اُنھوں نے حمص ،جبلہ،مدائن،شام،مکہ ،مدینہ،یمن ،مصر ،بغداد،کوفہ بصرہ ،جزیرہ ،فارس اور اصفہان وغیرہ کی طرف سفر کرکے اپنی علمی پیاس بجھائی۔[4]
امام طبرانی﷫ کے رحلاتِ علمیہ کی مختصر داستان اس طرح ہے :
۲۷۳ھ کو سماع حدیث شروع کیا، اس وقت آپ کی عمر ۱۳ سال تھی۔
۲۷۴ھ کو بیت المقدس کی طرف سفرکیا ،اسی سال رملہ گئے اور واپس عکا آئے ۔
275 ھ میں عکا میں سماع حدیث کیا۔
۲۷۷ھ میں طبریہ میں ٹھہرے ۔
۲۷۸ھ میں مدائن کی طرف متوجہ ہوئے اورحمص ،حلب، طرطوس ،سنجار ،مِصّیصہ پہنچے۔
۲۷۹ھ میں جَبَلہ پہنچے اور اسی سال دمشق گئے۔
۲۸۰ ھ میں آپ مصر گئے ۔
۲۸۲ھ میں آپ نے سمندری سفر کیااور یمن کے علاقے شبام پہنچے ۔
۲۸۳ھ کو آپ نے حج کیا، مکہ اور مدینہ کے محدثین سے فائدہ اٹھایا۔
۲۸۴ھ کو آپ یمن کے علاقے صنعاء پہنچے ۔
۲۸۵ھ کو آپ مصر پہنچے،287ھ میں بغداد آئے، ۲۸۸ھ تک وہاں کے محدثین سے علم حاصل کیا۔
آپ کی عمر ۳۳ سال ہو گئی اور ۲۹۰ھ کو آپ اصفہان پہنچے۔پھر فارس کا سفر کیا ۔
۳۱۰ھ یا ۳۱۱ کو پھر آپ واپس اصفہان آئے اور اسی کو اپنا مسکن بنالیا اور۳۶۰ھ یعنی وفات تک یہاں ٹھہرے ۔
المعجم الصغیر سے امام طبر انی کے علمی سفر پر روشنی پڑتی ہے، جس میں ان شہروں میں ان کے اساتذہ کے ناموں کا بھی علم ہوتا ہے ۔اس کے لیے ان احادیث   کی اسناد کا ترتیب وار مطالعہ کریں۔5، 209، 98، 659، 18، 7، 1101، 10، 8، 4،2، 1، 975، 680، 952، 213، 652، 222، 1100، 216، 101، 211، 1014، 763، 61، 655، 245، 697، 911
محدثین کے ہاں مقام و مرتبہ
          امام موصوف اپنے دور کے عظیم محدثین کی آنکھوں کا تارہ تھے ۔معاصرین اور متاخرین ان کی تعریف میں رطب اللسان نظرآتے ہیں ۔چند ایک کی گواہیاں پیش خدمت ہیں:
ابراہیم بن محمد بن حمزہ نے کہا :میں نے ان سے بڑا کوئی حافظ نہیں دیکھا ۔
حافظ ذہبی فرماتے ہیں کہ وہ :ضبط و ثقاہت اور صدق وامانت کے ساتھ بڑے عظیم رتبہ پر فائز اور عالی شان محدث تھے ۔اور ذہبی نے ہی انھیں الامام العلامہ ،اور مسند الدنیا کہا ہے۔ ابن عماد نے انھیں مسند العصر کہا۔[5]
امام طبرانی﷫ حافظ ذہبی کی نظر میں
حافظ ذہبی ﷫ لکھتے ہیں :
هوالإمام الحافظ الثقة الرحال الجوال محدث الإسلام علم المعمرین[6]
حافظ ذہبی کی تحقیق کے مطابق امام طبرانی﷫ نے عالم اسلام کے محدثین سے سولہ سال میں علم حاصل کیا ،جبکہ راقم نے جب تتبع کیا تو المعجم الصغیر سے جو امام طبرانی﷫ نے مختلف محدثین سے روایت بیان کرتے وقت خود تاریخیں لکھی ہیں ان میں سے آخری تاریخ ۲۹۵ھ ہے۔ آپ نے اصفہان میں اپنے شیخ محمد بن اسد اصبہانی سے روایت کیا۔[7]اور حافظ ذہبی کے مطابق انھوں نے سماعِ حدیث کی ابتدا۲۷۳ھ کو کی اور باقاعدہ سفر ۲۷۵ھ کو شروع کیا ، حالانکہ ۲۷۴ھ کو انھوں نے بیت المقدس میں سماع حدیث کیا۔[8]اگر ۲۷۵سے ابتدا اور ۲۹۵ھ کو رحلۃ علمیہ کا اختتام لیں تو بیس سال بنتے ہیں نہ کہ سولہ ۔یہاں یہ بھی یاد رہے کہ انھوں نے ۲۷۴ھ میں بیت المقدس کے اساتذہ ؍شیوخ سے احادیث لی تھیں جو تین شیوخ ہیں :احمد بن مسعودالخیاط [9]،احمد بن عبیدبن اسماعیل الفریابی[10]، عبداللّٰہ بن محمد بن مسلم الفریابی[11]
ا مام ابن مندہ اور حافظ ذہبی کی تحقیق کے مطابق امام طبرانی نے اپنا وطن اصفہان کو بنایا اور ساٹھ سال وہاں ٹھہرے۔[12] واللّٰہ اعلم۔آپ ۲۹۰ ھ میں پہلی دفعہ اصفہان آئے،پھر فارس کاسفر کیا ،پھر ۳۱۰ھ یا ۳۱۱ کو دوبارہ اصفہان آئے۔ [13] ا مام ابن مندہ کی تحقیق کے مطابق امام طبرانی ایک دفعہ اصفہان آئے تھے، پھر چلے گئے اور چودہ سال بعد پھر اصفہان آئے۔ [14]
ا ما م ابن مندہ نے امام طبرانی﷫ کے مستند حالات پر ایک رسالہ لکھا  جس میں لکھتے ہیں کہ
’’اللّٰہ تعالیٰ نے اہل اصفہان پر فضل اور احسان کیا کہ ان میں امام طبرانی جیسے عظیم محدث کو رہنے کی توفیق عطافرمائی ۔‘‘[15]
تصنیفات
المعجم الْكَبِير(200 جلدیں)                                                             المُعْجم الْأَوْسَط (24 جلدیں)
المُعْجم الصَّغِير(7جلدیں)                                                               مُسْند الْعشْرَة(30جلدیں)
مُسْند الشاميين(10جلد)                                                 كتاب النَّوَادِر (10جلدیں)
كتاب معرفَة الصَّحَابَة                                                  الْفَوَائِد (10جلدیں)
مُسْند أبي هُرَيْرَة ﷜                                                       مُسْند عَائِشَة رَضِي الله عَنْهَا
مُسْند أبي ذَر الْغِفَارِيّ (2جلدیں)                                    كتاب التَّفْسِير
كتاب مسانيد تَفْسِير بكر بن سهل                             كتاب دَلَائِل النُّبُوَّة (10جلدیں)
كتاب الدُّعَاء (10جلدیں)                                                                كتاب السّنة (10جلدیں)
كتاب الطوالات (3جلدیں)                                            كتاب الْعلم
كتاب وَصِيَّة النَّبِي ﷺ                                                  وَصِيَّة النَّبِي لأبي هُرَيْرَة
كتاب ذكر الْخلَافَة لأبي بكر وَعمر                             كتاب جَامع صِفَات النَّبِي ﷺ
كتاب فَضَائِل الْعَرَب وَعُثْمَان وَعلي                            مقتل الْحُسَيْن بن عَليّ ﷜
كتاب نسب النَّبِي ﷺ وَصفَة الْخُلَفَاء    كتاب انسابهم واسمائهم وَكُنَاهُمْ
امام طبرانی کی تصانیف سو سے زائد ہیں جن میں فضائل، مسانید اور فقہی موضوعات پر احادیث کو جمع کیا گیا ہے۔امام صاحب اپنی زندگی میں مرجع خلائق تھے اور وفات کے بعد ان کی کتب مرجع ثابت ہوئیں۔ امام طبرانی کی زندگی میں یا ان کی وفات کے بعد سے لے کر اب تک جو بھی کام حدیث او رعلوم حدیث پر ہو رہے ہیں کوئی کتاب ایسی نہیں جس میں امام الدنیا امام طبرانی کا ذکر خیر نہ ہو۔آپ جو کتبِ حدیث ،کتبِ رجال ، کتبِ علل ،کتب ِ علوم حدیث ، کتبِ تخریج ،کتب شروح حدیث اورکتب ِتفسیر اٹھائیں، سب میں امام طبرانی کا ذکر ضرور ملتا ہے۔
وفات کا سبب
          آپ بڑے غیرت مند انسان تھے، دین پر کسی سے کوئی سمجھوتہ نہیں کرتے تھے بلکہ دوٹوک انداز میں قرآن وحدیث کی ترجمانی کرتے تھے۔یہی دینی حمیت بعض فرقِ باطلہ کو اچھی نہ لگی اور انھوں نے آپ پر جادو کروا دیا جس سے آپ کی آنکھوں کی بصارت جا تی رہی اور آپ نے بروز شنبہ ۲۸ ذوالحجہ ۳۶۰ھ کو سوسال کی عمر میں وفات پائی ۔آپکی نمازِ جنازہ امام ابونعیم اصبہانی ﷫ نے پڑھائی اور صحابی رسول       حممہ بن حممہ   ﷜ کی قبر کے پہلو میں دفن ہوئے ۔[16]
ا مام طبرانی ۳۶۰ھ بروز ہفتہ فوت ہوئے اور اتوار کو ’جی‘ شہر کے دروازے المعروف بتیرہ   دفن ہوئے ۔ [17]
امام طبرانی کی تالیفاتِ حدیث اور ان کا اُسلوب
محدثین کی اصطلاح میں مُعجَم ان کتابوں کو کہا جا تا ہے جن میں شیوخ کی تر تیب پر حدیثیں درج کی گئی ہیں۔
المعجَم الکبیر : اس میں صحابہ کرام ﷢ کی تر تیب پر ان کی مرویات شامل کی گئی ہیں ۔اور اس میں مشہور صحابی حضرت ابو ہریرہ﷜ (م57ھ) جن کی مرویات کی تعداد 5364ہے، اس میں شامل نہیں ہیں۔ یہ کتاب 12جلدوں میں ہے اور اس میں 60ہزار احادیث جمع کی گئی ہیں ۔
المعجم الأوسط : اس کتاب کو بھی امام طبرانیؒ نے شیوخ کے ناموں پر مرتب کیا ہے، اس کی ترتیب و تالیف میں امام صاحب نے بڑی کا وش اور محنت کی۔ آپ کو یہ کتاب بہت عزیز تھی، اس کتاب سے امام صاحب کی حدیث میں فضیلت و کمال اور احادیث سے کثرتِ واقفیت کا پتہ چلتا ہے۔ یہ کتاب 6ضخیم جلدوں میں ہے۔
یہ معجم شیوخ کے اعتبار سے ہے۔ ہر شیخ سے امام طبرانی عجیب وغریب روایات لائے ہیں۔یہ دارقطنی کی ’الافراد ‘کی مثل ہے ،امام طبرانی اس کتاب کے متعلق کہا کرتے تھے کہ اس میں میری روح ہے، یعنی یہ کتاب انھیں بہت ہی پسندتھی ۔
یہ کتاب گم شدہ کتب میں سے تھی لیکن اللّٰہ تعالیٰ نے اس کا مکمل قلمی نسخہ ترکی سے میسر فرما دیا۔ اس عظیم کتاب کو منظر عام پر لانے کا کریڈٹ اللّٰہ تعالیٰ کی توفیق و نصرت کے بعد سید صبحی بدری سامرائی کو جاتا ہے ،جزاہ اللّٰہ خیرًا۔اس کی سب سے پہلے تحقیق ڈاکٹر محمود طحان نے تحقیق کی اور تین جلدیں شائع کیں اورباقی کا وعدہ کیا۔ لیکن وہی ہوتا ہے جو اللّٰہ تعالیٰ کو منظور ہو، باقی اجزا کی وہ تحقیق نہ کر سکے اور جن تین اجزا کی تحقیق کی تھی، اس کو بھی محققین اور اہل علم نے زیادہ پسند نہ کیا کیو نکہ اس میں بہت زیادہ تحریف ،تصحیف اور سقط رہ گیا تھا حالانکہ اس طرح کی کمزوریوں سے کتاب کو منزہ ہو نا چاہئے اور ہر صاحب علم جانتا ہے کہ ان مذکورہ خامیوں کا کتاب کے نقائص میں کتنا عمل دخل ہے ۔پھر اللّٰہ تعالیٰ جزائے خیر عطافرمائے محدث العصر ابواسحٰق الحوینی﷾ کو کہ انھوں نے فضیلۃ الشیخ محقق طارق بن عو ض اللّٰہ مصری ﷾ کو توجہ دلائی کہ آپ المعجم الاوسط پر کام کریں، پھر طارق بن عوض اللّٰہ کی نگرانی میں ایک ٹیم نے اس کتاب پر محنت کی اورتحقیق کا حق ادا کردیا ۔
امام طبرانی﷫ نے علم کے حصول میں مسلسل بیس سال محنت کی اور علم کی شاہراہ پر چل کر غرائب ،افراد اور فوائد جمع کئے ۔ المعجم الاوسط کا مقام و مرتبہ بجا ہے ۔شیخ ابو اسحٰق الحوینی﷾ نے اس پر کچھ تعاقب عوذ الجاني بتسدید الأوهام الواقعة في أوسط الطبراني کے نام سے کیا ہے جو لائق مطالعہ ہے ۔
منہج کتاب:امام طبرانی﷫ کی عظیم الشان فوائد پر مشتمل یہ کتاب ہے، اس میں انھوں نے اپنے مشائخ کی وہ تمام مرویات جمع کر دی ہیں جو خود سنی ہیں ۔شیوخ کی ترتیب حروف تہجی والی قائم کی ہے ۔اس کتاب میں درج ذیل منہج اختیار کیا گیا ہے :
a       امام طبرانی اپنی اس کتاب میں عجیب وغریب معلومات لکھتے ہیں جیساکہ
·  ایک راوی کے بارے میں ابومروان عثمانی کہتے ہیں کہ جب میں نے ان سے حدیث سنی اس وقت ان کی عمر ایک سو بارہ سال تھی۔ (حدیث نمبر:۱۰۳۶)
·  ابوعمرو زیاد بن طارق کے متعلق لکھا ہے کہ جب اُن سے عبیداللّٰہ بن رماحس نے بیان کیا تو اس وقت ان کی عمرایک سو بیس سال تھی ۔(حدیث نمبر:۴۶۳۰)
·  کثیر النوا٫ اپنے شیخ ابومریم انصاری کے بارے میں کہتے ہیں کہ جب میں نے ان سے حدیث بیان کی تواس وقت ان کی عمرایک سو پچاس سال تھی۔ (حدیث نمبر:۵۰۸۱)
b     امام طبرانی راوی کی نسبت کی وجہ تسمیہ بھی لکھتے ہیں۔مثلاً ایک راوی ابومالک الصفی ہیں ۔ان کو الصفی کہنے کی وجہ تسمیہ یہ بتاتے ہیں کہ ابوبکر بن صدقہ نے کہا کہ اُنھوں نے بصرہ مسجد میں پچاس سال تک پہلی صف میں نماز کی پابندی کی۔ (حدیث:۱۳۷۴)
c     اسی طرح امام طبرانی﷫ جب بھی کسی شیخ کی احادیث کو شروع کرتے ہیں تو اس کا مفصل نام لکھتے ہیں، پھر اس کے نام،والد اور نسبت کو بیان کرتے ہیں۔(حدیث:۳)،اور بعض دفعہ صرف شیخ کے نام پر ہی اکتفا کرتے ہیں۔ (حدیث:۳۱)
مثلاً پہلی روایت اس طرح ذکر کرتے ہیں:
حدثنا أحمد بن عبد الوهاب بن نجده الحوطي
بعد میں صرف احمد بن عبدالوہاب پر اکتفا کرتے ہیں اور کبھی صرف احمد کو کافی سمجھتے ہیں ۔
المعجم الصغیر اور اس کا اُسلوب
اس کی ترتیب بھی شیوخ کے ناموں پر ہے اور اس میں ایک ہزار سے زیادہ شیوخ کی ایک ایک حدیث جمع کی ہے۔ یہ 1311ھ میں مطبع انصاری دہلی سے شائع ہوئی۔
a       اما م طبرانی﷫ ہر روایت کے آخر میں تفرد کی وضاحت ضرور کرتے ہیں مثلا ً تفرد به معلی بن عبدالرحمٰن اور تمام احادیث کے آخر میں اسطرح کی وضاحتیں موجود ہیں۔ تاہم بعض احادیث کے آخر میں تفرد کی وضاحت نہیں، مثلاً دیکھئے حدیث:۷۱۲،۱۴۴
امام طبرانی﷫ کے اس انداز پر محدث العصر ابواسحاق الحوینی ﷾ نے تنقید کی ہے اور اپنی ۱۹ جلدوں کی لاجواب کتاب" تنبیه الهاجد إلى ما وقع من النظر في کتب إلا ماجد" میں اس کو تنقید کا نشانہ بنایا ہے اور تفرد کے وہم کو زائل کرتے ہوئے مزید اس کے توابع لکھے ہیں۔ اس کتاب کے مطالعہ سے قاری شیخ الحوینی﷾ کی سندِ حدیث پر دقت نظر کا اعتراف کئے بغیر نہیں رہ سکے گا۔ واضح رہے کہ بعض عرب علما شیخ الحوینی ﷾ کے اس نقطہ نظر سے کلی اتفاق نہیں کرتے ۔
b     امام طبرانی﷫ بعض احادیث پر صحت و ضعف کے لحاظ سے حکم لگاتے ہیں، مثلاً ایک حدیث کی دو سندیں بیان کرنے کے بعدلکھتے ہیں: "وهما صحیحان" (بعدحدیث:۱۷۵)
c     امام طبرانی﷫کبھی کبھی کنیت سے معروف راویوں کے اصل نام بھی لکھتے ہیں بلکہ بسا اوقات اس کے اصل نام کے ثبوت کے لئے اس کو با سند پیش کرتے ہیں مثلاً مشہور صحابی ابوثعلبہ خشنی ﷜ کے اصل نام کی وضاحت کے لئے سند لکھتے ہیں:
حدثنا أبو زرعة عبد الرحمٰن بن عمرو الدمشقي، حدثنا حیوة بن شریح، قال سمعت بقیة بن الولید، یقول اسم أبي ثعلبة الخشنی: لاشومة بن جرثومة. (بعد حدیث:۱۷۰)
d     امام طبرانی﷫ اپنے شیوخ کا مکمل نام لکھنے کی کوشش کرتے ہیں تاکہ محقق اور قاری کسی وہم میں مبتلا نہ ہو جائے۔ اس سے بھی امام طبرانی﷫ کی احتیاط کا اندازہ ہوتا ہے کہ وہ جس بھی شیخ سے حدیث لیتے، اس کا مکمل نام تفصیل کے ساتھ ضرور لکھتے ،لکھنے کے بعد اس کو محفوظ رکھتے ۔ایک جگہ لکھتے ہیں :
حدثنا محمد بن عبد الرحیم بن بحیر بن عبد الله بن معاویة بن بحیر بن ریشان الحمیری            (حدیث:۹۷۳)
e     امام طبرانی﷫ بسا اوقات اپنے شیخ سے جس شہر میں روایت سنتے ہیں، اس کی وضاحت بھی کرتے ہیں مثلاً لکھتے ہیں: حدثنا یحیٰی بن محمد الجباني البصری، ببغداد (حدیث:۱۷۴)
ایک جگہ لکھتے ہیں: حدثنا إبراهیم بن موسی النوری، ببغداد (حدیث:۳۴۰)
f     امام طبرانی﷫ بسا اوقات یہ بھی بتاتے ہیں کہ میں نے یہ حدیث اپنے شیخ سے کس سال سنی ۔اس سے امام طبرانی کے حالاتِ زندگی کی وضاحت ہوتی ہے کہ کس سال وہ کہاں تھے؟ بعض اوقات اس سے بڑی اہم باتوں کا علم ہوتا ۔ امام طبرانی ﷫ لکھتے ہیں :
((حدثنا أحمد بن عبد الله اللحیاني العکاوي، بمدینة عکاء سنة خمس وسبعین ومئتین)) (حدیث:۸۳۹)
اس سے پتہ چلتا ہے کہ امام طبرانی﷫ پندرہ سال کی عمر میں سماع حدیث کر چکے تھے اور کتابت حدیث میں آپ کے اہتمام واحتیاط کا بھی پتہ چلتا ہے ۔یہ بھی علم ہوتا ہے کہ آپ عکاء میں پیدا ہوئے ۔اور عکاء بستی کے بجائے ایک شہر کا نام ہے۔
g     امام صاحب روایت حدیث کے بعد في كتابهکی وضاحت بھی کرتے ہیں جس کا مطلب ہے کہ شیخ نے اس حدیث کو اپنی کتاب سے بیان کیا تھا ۔ مثلا لکھتے ہیں :
حدثنا إبراهیم بن إسحق الحربي في کتابه (حدیث:۹۲۰)
h     امام ﷫ بسا اوقات مختلف فیہ مسائل میں بھی اپنے رائے کا اظہار کرتے ہیں مثلاً ایک حدیث ہے کہ رسول اللّٰہ ﷺ نے فرمایا :اے بنی عبدِمناف ،اے بنی عبدمطلب !اگر تم اس معاملہ کے ذمہ دار بنو تو خانہ کعبہ کا طواف کرنے والے کسی بھی شخص کو رات اور دن کے کسی بھی حصے میں نماز پڑھنے سے منع نہ کرنا۔امام طبرانی اس حدیث میں بیان کئے گئے فقہی مسئلہ کے متعلق لکھتے ہیں:
یعني الرکعتین بعد الطواف السبع أن یصلى بعد صلاة الصبح قبل طلوع الشمس وبعد صلاة العصر قبل غروب الشمس وفي کل النهار.            (حدیث:۱۸۴)
’’آپ ﷺ کی مراد سات چکر طواف کے بعد کی دو رکعتوں سے ہے کہ وہ فجر کی نماز کے بعد طلوع آفتاب سے پہلے اور عصر کی نماز کے بعد غروب سے پہلے اور اسی طرح دن کے ہر حصہ میں پڑھی جا سکتی ہیں ۔‘‘
i     بعض دفعہ شبہات کا بھی ازالہ کرتے ہیں ،ایک حدیث کے بعد لوگوں کا شبہ ذکر کرتے ہیں کہ ’’ہم لوگ دعائیں کرتے ہیں مگر وہ قبول نہیں ہوتیں ۔‘‘پھر اس کا جواب دیتے ہوئے لکھتے ہیں کہ :گویا یہ اعتراض اللّٰہ تعالیٰ پر ہے کیونکہ اس نے خود فرمایا ہے اور یقیناً اس کی بات برحق ہے ،کیونکہ اللّٰہ تعالیٰ نے فرمایا:          ﴿ ادْعُوْنِيْۤ اَسْتَجِبْ لَكُمْ١ؕ﴾[18]
نیز فرمایا: ﴿وَ اِذَا سَاَلَكَ عِبَادِيْ عَنِّيْ فَاِنِّيْ قَرِيْبٌ١ؕ اُجِيْبُ دَعْوَةَ الدَّاعِ اِذَا دَعَانِ١ۙ ﴾ [19]
’’اور جب میرے بندے تم سے میرے متعلق پوچھیں تو انھیں بتا دو کہ میں ان کے نزدیک ہوں اور پکارنے والے کی پکار کا جواب دیتا ہوں ۔‘‘
پھر اس شبہ کے جواب میں ایک حدیث بھی لے کر آئے ہیں ۔[20]
j     امام طبرانی﷫ بعض احادیث کو اپنی دیگر کتب مثلا المعجم الکبیر یا المعجم الاوسط سے بیان کر دیتے ہیں مثلاً دیکھئے المعجم الکبیر کی احادیث
(الکبیر:ج۲۳؍ص۴۳۳،الصغیر:۵۹۳)               (الکبیر:ج۲۳؍ص۳۹۳،الصغیر:۵۷۳)
(الکبیر:ج۲۵ ؍ص۱۰۲،الصغیر:۴۹۸)                (المعجم الاوسط:۱۳۴۲،الصغیر:۷۵۵)
معاجم ثلاثہ کے اُسلوب کا موازنہ
المعجم الکبیر صحابہ کرام ﷢ کی ترتیب سے ان سے مروی احادیث جمع کی ہیں لیکن اس میں سیدنا ابوہریرہ ﷜کی مسند نہیں ہے ،کیونکہ وہ ان کی الگ مسند لکھنا چاہتے تھے ۔اسی طرح بکثرت روایت کرنے والے صحابہ کی تمام روایات کا احاطہ نہیں کیا۔صحابی کی روایات ذکر کرنے سے پہلے اس کے حالات باسند ذکر کئے ہیں۔ سیرتِ صحابہ ﷺ کی مستند؍ باسند کتاب المعجم الکبیر سے الگ کی جا سکتی ہے۔پھر ان سے مروی احادیث بیان کی ہیں ۔
جبکہ المعجم الاوسط میں شیوخ سے جتنی بھی مرویات ملیں ، وہ تمام بیان کر دی گئی ہیں ۔
المعجم الصغیر میں صرف ایک شیخ سے ایک ہی حد یث بیان کی ہے، دیکھیں (سیراعلام النبلا٫)
المعجم الاوسط میں اور المعجم الصغیر میں بعض رواۃ پر حکم بھی لگایا ہے لیکن المعجم الکبیر میں کسی راوی پر حکم نہیں لگایا ۔
المعجم الکبیر میں تفرّد کا ذکر نہیں کیا جبکہ الصغیر اور الاوسط دونوں میں تفرد کا ذکر کیا ہے۔
تینوں معاجم میں کچھ باتیں مشترک ہیں مثلاً
ہر بات با سند پیش کی ہے جبکہ مرفوع ،مو قوف اور مقطوع تینوں طرح کی روایات بیان کی ہیں اور ان میں صحیح بھی ہیں اور ضعیف بھی ۔
امام طبرانی کی دیگر کتب کا مختصر تعارف
مسند الشامیین   :اس کتاب میں صر ف ان صحابہ سے روایات بیان کی ہیں جو شام میں مقیم تھے اور شام کے بعض راویوں کے جر حِ تعدیل کے لحاظ سے حالات بھی باسند بیان ہوئے ہیں ۔
مسند الشامیین سے محدثین نے رواۃ کے حالات بھی بیان کیے ہیں مثلا الإکمال ازمحمد حسنی میں کافی جگہوں پر مسندا لشامیین کے حوالے سے جرح و تعدیل اور راویوں کے حالات بیان کئے گئے ہیں۔ مثلا ًا لاکمال:۱۱۱۸،۱۰۸۵
طرقِ حدیث من کذب علي:اس میں ۶۳ صحابہ ﷢ سے ایک ہی روایت «من کذب علي متعمدًا» کو مختلف ۱۷۸ سندوں کے ساتھ بیان کیا ہے ۔
کتاب الاوائل :اس کتاب میں امام طبرانی﷫ نے ان احادیث کا ذکر کیا ہے جن میں ہر معاملہ میں اولین کا ذکر ہے۔ مثلاً اللّٰہ تعالیٰ نے سب سے پہلے قلم پید اکیا وغیرہ
الاحادیث الطوال : امام طبرانی﷫ نے اس کتاب میں ان ۶۲احادیث کو جمع کیا ہے جو متن کے لحاظ سے مفصل اور لمبی ہیں ۔
امام طبرانی کا راویوں پر جرح و تعدیل کے اعتبار سے حکم لگانا
امام طبرانی﷫ بسا اوقات اپنی کتب میں بعض راویوں پر حکم بھی لگاتے ہیں ۔ اور اسے کبھی خود اور کبھی کسی معتبر محدث سے باسند نقل کرتے ہیں۔ مثلاً
ابراہیم بن ابی عبلہ               ثقہ                           ( مسند الشامیین :۷)
ثور بن یزید کلاعی                 ثقہ                           ( مسند الشامیین:۵۰۰)
شعیب بن ابی حمزہ                ثقہ ثبت    (مسند الشامیین :۲۹۲۹)
داود بن ابی القصاف              شیخ ثقہ      (الاوسط ح:۳۵۰۴)      
سیف بن عبیداللّٰہ               کان ثقہ     (‎الاوسط ح:۱۶۹۳)
عبداللّٰہ بن عبداللّٰہ ہدادی ثقہ                             (الاوسط ح:۷۵۴۴)
عبدالسلام بن ہاشم                ما اعلم الا خیراً              (الاوسط ح:۸۱۶۳)

[1]    تذکرۃالحفا ظ : ۲؍۱۲۶
[2]    تذکرۃ الحفاظ : ۳؍126
[3]    ایضاً
[4]    تذکرۃ الحفاظ: ۳؍۱۲۷
[5]    تذکرۃ الحفاظ : ۳؍۱۲۶ تا۱۳۰؛لسا ن المیزان: ۳؍۷۳
[6]    سیر اعلام النبلا ء :ج۱۶؍ص۱۱۹
[7]    المعجم الصغیر : رقم الحدیث۹۱۱
[8]    المعجم الصغیر:۵
[9]    المعجم الصغیر:۵
[10] المعجم الصغیر:۹۹
[11] المعجم الصغیر:۶۰۰
[12] سیر اعلام النبلا:ج۱۶؍ص۳
[13] سىر اعلام النبلا: ج16؍ص3
[14] جزء فیہ ذکر الامام الطبرانی:ص۲
[15] جزء فیہ ذکر الامام الطبرانی:ص۱
[16] تذکرۃ الحفاظ: ۳؍۱۳۰؛سير اعلام النبلاء :16؍119 تا130
[17] تاریخ اصبہان:ص۱۷۰
[18] سورۃ المؤمن :۶۰
[19] سورۃ البقرۃ:۱۸۶
[20] المعجم الصغیر :ص۲۱۶

0 Comments:

Post a Comment

Subscribe to Post Comments [Atom]

<< Home