ديوبنديوں كے پيچھے نماز ادا كرنا
السلام علیکم.
ميرے علاقے ميں اكثريت حنفى اور ديوبندى حضرات كى ہے، اس علاقے ميں سلفى اہلحديث حضرات كى مساجد بہت ہى كم ہيں، اور عصر كى نماز كا وقت مجھے ڈيوٹى پر ہى ہو جاتا ہے جہاں قريب كوئى سلفى اہلحديث مسجد نہيں جس ميں عصر كى نماز باجماعت ادا كر سكوں، بلكہ وہاں حنفيوں كى مسجد ہے جو عصر كى نماز تاخير كے ساتھ مغرب سے تقريبا ايك گھنٹہ قبل ادا كرتے ہيں.
مجھے بتائيں كہ ميں كيا كروں آيا اس حالت ميں نماز مؤخر كر كے نماز باجماعت ادا كروں يا كہ اول وقت ميں اكيلے ہى ڈيوٹى والى جگہ ميں نماز ادا كر ليا كروں ؟
--------------------------------------------
www.mominsalafi.blogspot.com
www.talashhaq.blogspot.com
www.salafimomin.wordpress.com
www.salafimomin.blogspot.com
www.mominsalafi.simplesite.com
-----------------------------------------
وعليكم السلام.
ديوبندى حضرات نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم اور صلحاء كے توسل كے بھى قائل ہيں.
بدعتى شخص كے پيچھے نماز ادا كرنے كے بارہ ميں راجح حكم يہى ہے كہ جس كے مسلمان ہونے كا حكم ہو اس كے پيچھے نماز ادا كرنى جائز ہے، اور جس كى بدعت كفريہ ہو اور وہ اس بدعت كى بنا پر كافر ہو جائے تو اس كے پيچھے نماز نہيں ہوگى.
شيخ ابن باز رحمہ اللہ سے درج ذيل سوال دريافت كيا گيا:
كيا اہل سنت والجماعت كے عقيدے كے مخالف شخص مثلا اشعرى عقيدہ ركھنے والے كے پيچھے نماز ادا كرنا جائز ہے ؟
شيخ رحمہ اللہ كا جواب تھا:
قريب تر جواب تو يہى ہے كہ ( واللہ اعلم ) جس كے بارہ ميں ہم مسلمان ہونے كا حكم لگائيں تو اس كے پيچھے ہمارا نماز ادا كرنا صحيح ہے، اور جس كے مسلمان نہ ہونے كا حكم ہو اس كے پيچھے نماز نہيں ہوگى.
اہل علم كى ايك جماعت كا قول يہى ہے اور صحيح قول بھى يہى ہے.
ليكن جو كہتا ہے كہ نافرمان شخص كے پيچھے نماز ادا كرنا صحيح نہيں اس كا قول قابل قبول نہيں، اس كى دليل يہ ہے كہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے امراء كے پيچھے نماز ادا كرنے كى اجازت دى ہے، اور اكثر امراء نافرمان ہوتے ہيں، اور پھر ابن عمر اور انس رضى اللہ تعالى عنہم اور صحابہ كى ايك جماعت نے حجاج بن يوسف كے پيچھے نماز ادا كى حالانكہ وہ سب سے زيادہ ظالم شخص تھا.
حاصل يہ ہوا كہ ايسے بدعتى شخص كے پيچھے نماز ہو جاتى ہے جس كى بدعت اسے دائرہ اسلام سے خارج نہ كرتى ہو، يا ايسے فاسق و فاجر شخص كے پيچھے بھى نماز ہو جائيگى جو اسے دائرہ اسلام سے خارج نہ كرے.
ليكن انہيں سنت پر عمل كرنے والے شخص كو امام بنانا چاہيے، اور اسى طرح اگر كچھ لوگ كہيں جمع ہوں تو وہ نماز كے ليے اپنے ميں سب سے افضل شخص كو آگے كريں " انتہى
ديكھيں: فتاوى شيخ ابن باز ( 5 / 426 ).
اور شيخ ابن عثيمين رحمہ اللہ سے درج ذيل سوال دريافت كيا گيا:
كچھ اسلامى ممالك جہاں كى اكثر مساجد ميں اشعرى مذہب ركھنے والے امام ہوں ان مساجد ميں اشعرى عقيدہ ركھنے والے امام كے پيچھے نماز ادا كرنے كا حكم كيا ہے ؟
شيخ رحمہ اللہ كا جواب تھا:
" جائز ہے، اور امام كے عقيدہ كے متعلق سوال كرنا لازم نہيں "
ميں نے شيخ رحمہ اللہ سے دريافت كيا:
اگر يہ پتہ چل جائے كہ امام اشعرى عقيدہ ركھتا ہے تو ؟
شيخ رحمہ اللہ نے جواب ديا:
" اس كے پيچھے نماز جائز ہے، ميرے علم كے مطابق تو كسى ايك نے بھى اشاعرہ يعنى اشعرى عقيدہ ركھنے والوں كو كافر قرار نہيں ديا " انتہى
ماخوذ از: ثمرات التكوين تاليف: احمد عبد الرحمن القاضى.
اور مستقل فتاوى كميٹى كے فتاوى جات ميں درج ہے:
رہا مسئلہ بدعتى كے پيچھے نماز ادا كرنا تو اگر اس كى بدعت شركيہ ہو مثلا غير اللہ كو پكارنا اور غير اللہ كے ليے نذر و نياز دينا، اور ان كا اپنے پيروں اور مشائخ كے بارہ ميں اللہ كے كمال علم جيسا عقيدہ ركھنا، اور ان كے بارہ ميں يہ عقيدہ ركھنا كہ انہيں علم غيب ہے، يا كون ميں اثرانداز ہوتے ہيں اور اختيار ركھتے ہيں تو پھر ان كے پيچھے نماز صحيح نہيں ہو گى.
اور اگران كى بدعت شركيہ نہيں؛ مثلا نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم سے ثابت شدہ ذكر كو وہ اجتماعى طور پر كريں اور لہك كر كريں تو ان كے پيچھے نماز صحيح ہے.
ليكن يہ ہے كہ مسلمان شخص كو نماز كى ادائيگى كے ليے سنت پر عمل كرنےوالا امام تلاش كرنا چاہيے بدعتى نہيں؛ تا كہ اجروثواب زيادہ ہو، اور برائى سے دور رہے " انتہى
ديكھيں: فتاوى اللجنۃ الدائمۃ للبحوث العلميۃ والافتاء ( 7 / 353 ).
اس بنا پر اگر آپ كو علم ہو كہ وہ شركيہ امور نہيں كرتا تو اس كے پيچھے نماز صحيح ہے، چاہے وہ عصر كى نماز سوال ميں مذكورہ وقت تك كرتا ہو اہم يہ ہے كہ شركيہ امور نہ كرے اور وقت كے اندر نماز كرتا ہو تو نماز صحيح ہے، اور اس كى بنا پر نماز باجماعت سے پيچھے رہنا جائز نہيں ہوگا.
واللہ اعلم .
ميرے علاقے ميں اكثريت حنفى اور ديوبندى حضرات كى ہے، اس علاقے ميں سلفى اہلحديث حضرات كى مساجد بہت ہى كم ہيں، اور عصر كى نماز كا وقت مجھے ڈيوٹى پر ہى ہو جاتا ہے جہاں قريب كوئى سلفى اہلحديث مسجد نہيں جس ميں عصر كى نماز باجماعت ادا كر سكوں، بلكہ وہاں حنفيوں كى مسجد ہے جو عصر كى نماز تاخير كے ساتھ مغرب سے تقريبا ايك گھنٹہ قبل ادا كرتے ہيں.
مجھے بتائيں كہ ميں كيا كروں آيا اس حالت ميں نماز مؤخر كر كے نماز باجماعت ادا كروں يا كہ اول وقت ميں اكيلے ہى ڈيوٹى والى جگہ ميں نماز ادا كر ليا كروں ؟
--------------------------------------------
www.mominsalafi.blogspot.com
www.talashhaq.blogspot.com
www.salafimomin.wordpress.com
www.salafimomin.blogspot.com
www.mominsalafi.simplesite.com
-----------------------------------------
وعليكم السلام.
ديوبندى حضرات نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم اور صلحاء كے توسل كے بھى قائل ہيں.
بدعتى شخص كے پيچھے نماز ادا كرنے كے بارہ ميں راجح حكم يہى ہے كہ جس كے مسلمان ہونے كا حكم ہو اس كے پيچھے نماز ادا كرنى جائز ہے، اور جس كى بدعت كفريہ ہو اور وہ اس بدعت كى بنا پر كافر ہو جائے تو اس كے پيچھے نماز نہيں ہوگى.
شيخ ابن باز رحمہ اللہ سے درج ذيل سوال دريافت كيا گيا:
كيا اہل سنت والجماعت كے عقيدے كے مخالف شخص مثلا اشعرى عقيدہ ركھنے والے كے پيچھے نماز ادا كرنا جائز ہے ؟
شيخ رحمہ اللہ كا جواب تھا:
قريب تر جواب تو يہى ہے كہ ( واللہ اعلم ) جس كے بارہ ميں ہم مسلمان ہونے كا حكم لگائيں تو اس كے پيچھے ہمارا نماز ادا كرنا صحيح ہے، اور جس كے مسلمان نہ ہونے كا حكم ہو اس كے پيچھے نماز نہيں ہوگى.
اہل علم كى ايك جماعت كا قول يہى ہے اور صحيح قول بھى يہى ہے.
ليكن جو كہتا ہے كہ نافرمان شخص كے پيچھے نماز ادا كرنا صحيح نہيں اس كا قول قابل قبول نہيں، اس كى دليل يہ ہے كہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے امراء كے پيچھے نماز ادا كرنے كى اجازت دى ہے، اور اكثر امراء نافرمان ہوتے ہيں، اور پھر ابن عمر اور انس رضى اللہ تعالى عنہم اور صحابہ كى ايك جماعت نے حجاج بن يوسف كے پيچھے نماز ادا كى حالانكہ وہ سب سے زيادہ ظالم شخص تھا.
حاصل يہ ہوا كہ ايسے بدعتى شخص كے پيچھے نماز ہو جاتى ہے جس كى بدعت اسے دائرہ اسلام سے خارج نہ كرتى ہو، يا ايسے فاسق و فاجر شخص كے پيچھے بھى نماز ہو جائيگى جو اسے دائرہ اسلام سے خارج نہ كرے.
ليكن انہيں سنت پر عمل كرنے والے شخص كو امام بنانا چاہيے، اور اسى طرح اگر كچھ لوگ كہيں جمع ہوں تو وہ نماز كے ليے اپنے ميں سب سے افضل شخص كو آگے كريں " انتہى
ديكھيں: فتاوى شيخ ابن باز ( 5 / 426 ).
اور شيخ ابن عثيمين رحمہ اللہ سے درج ذيل سوال دريافت كيا گيا:
كچھ اسلامى ممالك جہاں كى اكثر مساجد ميں اشعرى مذہب ركھنے والے امام ہوں ان مساجد ميں اشعرى عقيدہ ركھنے والے امام كے پيچھے نماز ادا كرنے كا حكم كيا ہے ؟
شيخ رحمہ اللہ كا جواب تھا:
" جائز ہے، اور امام كے عقيدہ كے متعلق سوال كرنا لازم نہيں "
ميں نے شيخ رحمہ اللہ سے دريافت كيا:
اگر يہ پتہ چل جائے كہ امام اشعرى عقيدہ ركھتا ہے تو ؟
شيخ رحمہ اللہ نے جواب ديا:
" اس كے پيچھے نماز جائز ہے، ميرے علم كے مطابق تو كسى ايك نے بھى اشاعرہ يعنى اشعرى عقيدہ ركھنے والوں كو كافر قرار نہيں ديا " انتہى
ماخوذ از: ثمرات التكوين تاليف: احمد عبد الرحمن القاضى.
اور مستقل فتاوى كميٹى كے فتاوى جات ميں درج ہے:
رہا مسئلہ بدعتى كے پيچھے نماز ادا كرنا تو اگر اس كى بدعت شركيہ ہو مثلا غير اللہ كو پكارنا اور غير اللہ كے ليے نذر و نياز دينا، اور ان كا اپنے پيروں اور مشائخ كے بارہ ميں اللہ كے كمال علم جيسا عقيدہ ركھنا، اور ان كے بارہ ميں يہ عقيدہ ركھنا كہ انہيں علم غيب ہے، يا كون ميں اثرانداز ہوتے ہيں اور اختيار ركھتے ہيں تو پھر ان كے پيچھے نماز صحيح نہيں ہو گى.
اور اگران كى بدعت شركيہ نہيں؛ مثلا نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم سے ثابت شدہ ذكر كو وہ اجتماعى طور پر كريں اور لہك كر كريں تو ان كے پيچھے نماز صحيح ہے.
ليكن يہ ہے كہ مسلمان شخص كو نماز كى ادائيگى كے ليے سنت پر عمل كرنےوالا امام تلاش كرنا چاہيے بدعتى نہيں؛ تا كہ اجروثواب زيادہ ہو، اور برائى سے دور رہے " انتہى
ديكھيں: فتاوى اللجنۃ الدائمۃ للبحوث العلميۃ والافتاء ( 7 / 353 ).
اس بنا پر اگر آپ كو علم ہو كہ وہ شركيہ امور نہيں كرتا تو اس كے پيچھے نماز صحيح ہے، چاہے وہ عصر كى نماز سوال ميں مذكورہ وقت تك كرتا ہو اہم يہ ہے كہ شركيہ امور نہ كرے اور وقت كے اندر نماز كرتا ہو تو نماز صحيح ہے، اور اس كى بنا پر نماز باجماعت سے پيچھے رہنا جائز نہيں ہوگا.
واللہ اعلم .
0 Comments:
Post a Comment
Subscribe to Post Comments [Atom]
<< Home