Saturday, February 20, 2016

اہل بدعت سے مناظرے کے بارے میں سلفی مؤقف – مختلف علماء کرام


(اہل بدعت سے مناظرے کے بارے میں سلفی مؤقف – مختلف علماء کرام)
امام عبید اللہ بن محمد بن بطہ العکبری رحمہ اللہ آپ اپنی کتاب ’’الإبانة عن شريعة الفرقة الناجية ومجانبة الفرق المذمومة (2/540-541رقم:679تحقيق رضا نعسان‘‘ میں فرماتے ہیں :

’’اگر کہنے والا کہے کہ: یقیناً آپ نے ہمیں جھگڑنے وجدال ومناظرے سے منع کیا، اور ہم نے یہ اچھی طرح سے جان لیا کہ یہی حق ہے، اور یہی علماء کرام کاراستہ ہے اور صحابہ کرام، مومنین میں سے عقل مندوں اور بصیرت رکھنے والے علماء کرام کی راہ ہے۔ پھر اگر کوئی شخص میرے پاس آئے اور ان اہوا (بدعات) میں سے کسی چیز کے متعلق سوال پوچھے جو ظاہر ہوئی ہیں، اور ان قبیح مذاہب کے بارے میں جو عام ہوئے ہیں، اور وہ مجھ سے ان میں سے کسی چیز کے بارے میں بات کرے اور جواب طلب کرے، اور میں ان میں سے ہوں جنہيں اللہ کریم نے اس بارے میں علم دیا ہو، ایسے بصیرت دی ہو جو ان شبہات کو زائل کرنے والی ہو، تو کیا پھر بھی میں بس اسے چھوڑ دوں کہ وہ کلام کرتا رہے اور کچھ جواب نہ دوں، اور اسے، اس کی اہوا وبدعت  کو یونہی چھوڑ دوں، اس کے قبیح مقالے کا اس پر رد نہ کروں؟

میں بے شک میں ایسے کو کہوں گا کہ: یا بات جان لو اے بھائی اللہ تعالی آپ پر رحم فرمائے  کہ بلاشبہ جس شخص کی طرف سے آپ اس آزمائش میں مبتلا ہوئے ہیں  اس کا حال تین میں سے ایک ضرور ہوگا:

1- یا تو وہ ایسا شخص ہوگا جس کے حسن طریقہ، اچھے مذہب اور سلامتی سے محبت کو آپ جانتے ہيں، اور اس کے قصد وارادے کو بھی جانتے ہیں کہ وہ استقامت چاہتا ہے، لیکن بس اس کے کان میں ان لوگوں کی کوئی بات پڑ گئی ہو جن کے دلوں میں شیاطین کا بسیرا ہے، اور وہ ان کی زبانوں سے قسما قسم کے کفریات نکلواتا ہے، پس یہ شخص جس آزمائش میں مبتلا ہوگیا ہے ان کی وجہ سے اس سے نکلنے کی راہ نہیں پارہا، تو پھر ایسے شخص کا سوال واقعی رہنمائی چاہنے والے کا سوال ہوگا، جس آزمائش میں وہ مبتلا ہوا ہے اس سے چھٹکارا چاہتا ہے، اور جس چیز سے تکلیف دیا گیا اس سے شفاء چاہتا ہے (عبارت غیر واضح۔۔۔) آپ کے علم کی طرف، اس کی حاجت آپ کی طرف ایسی ہے جیسے ایک پیاسے کو پیاس بجھانے والے صاف پانی کی ضرورت ہوتی ہے، اور آپ نے اس کی تابع فرمانی کو بھانپ لیا ہے، اور اس کی مخالفت سے امن میں ہیں(یعنی وہ مخالفت نہيں کرے گا اس کا اطمئنان ہے)،  تو یہ واقعی ایسا شخص ہے کہ جس کی رہنمائی کرنا اور شیطان کے مکروفریب سے بچا کر اسے سیدھی راہ دکھانا آپ پر واجب ہے۔ اور جس چیز کی جانب آپ اسے رہنمائی کریں، اور اسی پر رک جانے کی نصیحت کریں وہ کتاب وسنت اور اس امت کے علماء کرام جیسے صحابہ وتابعین کے صحیح آثار ہوں۔ اور یہ سب کچھ حکمت اور اچھے انداز میں وعظ ونصیحت کے ساتھ ہونا چاہیے۔  اور آپ کو اس چیز کے بارے میں خوامخواہ تکلف کرنے کی ضرورت نہيں جس کا آپ کو علم نہيں، پھر رائے پر انحصار کرنے لگیں، اور کلام کی باریک ودقیق تفصیلات میں گھسنے کی ضرورت نہیں، کیونکہ آپ کی یہ حرکت کرنا بدعت میں سے ہوگا، اگرچہ آپ کا ارادہ اس سے سنت کو چاہنے کا تھا۔ کیونکہ بلاشبہ آپ کا حق کا ارادہ کرنا مگر ناحق طریقے سے باطل ہے۔ اور آپ کا سنت پر کلام کرنا مگر غیر سنت طریقے سے بدعت ہے۔ اپنے ساتھی کے لیے شفاء کی تلاش خود کو مریض کرکے نہ کرو۔ نہ ہی اس کی اصلاح خود کو فساد میں ڈال کر کرو۔ کیونکہ بلاشبہ وہ لوگوں کی خیرخواہی کرہی نہيں سکتا جو اپنے ہی نفس کو دھوکہ دیتا ہو۔ جس کے اندر خود اپنے نفس کے لیے ہی خیر نہ ہو تو پھر کسی دوسرے کے لیے بھی اس میں خیر نہيں۔ پس جس کو اللہ تعالی چاہے گا اسے توفیق دے دے گا اور سیدھی راہ سجھا دے گا، اور جو بھی اللہ تعالی سے ڈرتا ہے وہ اس کی مدد ونصرت فرماتا ہے۔۔۔

لہذا اگر آپ کے سائل کہ یہ اوصاف ہوں، اور آپ کا جواب بھی اس طرح سے ہو جو ہم نے ابھی وضاحت کے ساتھ بیان کیا، اس میں بار بار محنت کی ضرورت بھی نہیں ہوگی۔ یہ ہے گزرے ہوئے ان علماء کرام کا راستہ جنہیں اللہ تعالی نے اس دین کی قدرآور شخصیات بنایا۔ تو یہ ان تین میں سے ایک شخص تھا۔

 

2- دوسرا شخص جو آپ کی مجلس میں حاضر ہوتاہے، جہاں آپ بھی حاضر ہیں اور اس سے اپنے نفس کے بارے میں امن میں ہیں، اور ساتھ میں آپ کے باکثرت مددگار ومعاونین (طرفداری کرنے والے) موجود ہیں، پس یہ شخص آکر ایسا کلام کرتا ہے جس میں سننے والوں کے دلوں کے لیےفتنہ وآزمائش ہو،  تاکہ وہ ان کو شک میں مبتلا کردے، کیونکہ وہ خود ان لوگوں میں سے ہے کہ جن کے دلوں میں کجی وٹیڑھ پن ہوتا ہے، جو متشابہ کے پیچھے لگتے ہیں بدعت وفتنہ مچانے کو۔ اور آپ کے ساتھ وہ لوگ حاضر ہیں آپ کے بھائیوں ساتھیوں میں سے جو آپ کے اہل مذہب ہيں کہ آپ کا کلام سنتے ہيں، لیکن یہ بات ہے کہ اس شخص کے مقابلے میں ان کے پاس کوئی حجت نہ ہو، نہ انہيں یہ شخص جو کچھ (بات) لے کر آیا ہے اس کی قباحت کا کچھ اندازہ تھا۔ اب اگر وہ اس سے خاموش ہوجاتا ہے تو پھر سامعین کے دل اس کے فتنے سے محفوظ نہیں، عقل مندوں پر بھی شک داخل کرسکتا ہے۔ لہذا یہ شخص بھی انہی میں سے جن کی بدعت کا اور ان کے خبیث مقالے کا آپ رد کریں، اور جو کچھ اللہ تعالی نے علم وحکمت دیا ہے اسے نشر کریں۔ یہاں آپ کے کلام سے مقصد اس سے جھگڑا یا مناظرہ کرنا نہيں۔ بلکہ آپ کے کلام کا مقصد اپنے بھائیوں کو اس کے جال سے بچانا ہو۔ کیونکہ ملحدوں کے جو خبیث لوگ ہوتے ہیں وہ شیطانوں کے جال کو پھینکتے ہیں تاکہ اس کے ذریعے مومنین کا شکار کیا جائے۔ پس آپ اپنے کلام سے اس کا مقابلہ وسامنا کریں، اپنے علم وحکمت کو نشر کریں اور اپنے ساتھیوں سے اور جو حاضرین ہیں ان سے خندہ پیشانی سے او رفصیح منطق کے ساتھ بات کریں یہاں تک کہ ان سب کو اس شخص سے کاٹ دیں، اور ان کے اور اس کی بات سننے کے مابین حائل ہوجائیں۔  بلکہ اگر آپ کو قدرت ہو تو علم کی کسی قسم سے اس کی قطع کلامی  کرلیں جس کے ذریعے سے لوگوں کی توجہ اور اس کے مابین حائل ہوسکیں تو ہوجائیں۔۔۔

پس یہ دو قسم کے اشخاص ہيں جن کا حال آپ نے جان لیا، اور میں نے ان دونوں کے کلام کرنے کی وجہ کا خلاصہ آپ کے سامنےبیان کردیا ہے۔

 

3- تیسرا وہ منحوس شخص جس کا دل ٹیڑھا ہوچکا ہے، اور اس کے قدم ہدایت کی راہ سے پھسل چکے ہیں، اور بصارت اندھی ہوچکی ہے، بدعت کی نصرت کرنے میں بالکل ڈٹا ہوا ہے، اس کی کوشش  یقین میں شک پیدا کرنے کی ہے اور آپ پر صحیح دین کو فاسد کردینے کی ہے۔ پس جو کچھ ہم نے اس باب میں روایت وحکایت آپ کے لیے بیان کی وہ سب اسی کی وجہ اور سبب سے تھی۔ کیونکہ بلاشبہ آپ کبھی بھی اس کی باتوں کو روکنے اور اس کے مکر کو پھیرنے کے لیے اس سے بہترین طریقہ نہيں پاسکتے کہ اس کے جواب دینےسے رک جائيں، اور اسے مخاطب کرنے سے ہی اعراض کریں، کیونکہ اس کی آپ سے مناظرہ کرنے کی غرض یہی تو ہے کہ وہ آپ کو فتنے میں مبتلا کرے اور آپ اس کی پیروی کرنے لگ جائیں۔ تو وہ آپ کو قابو کرلے، چناچہ آپ سے جو وہ مایوس ہوا ہے اس کا غصہ نکالنے کے لیے وہ چاہتا ہے کہ آپ اپنے دین کے تعلق سے جس بات کو ناپسند کرتے ہیں وہ سنوائے، تو آپ کو چاہیے کہ اس سے اپنے کو روک کر اسے نامراد کردیں، اور اس سے تعلق توڑ کر اسے ذلیل کردیں، کیا میں نے آپ کو الحسن رحمہ اللہ کا قول نہیں سنایا تھا کہ جب ان سے کسی کہنے والے نے کہا کہ: اے ابو سعید! آئیں ہم دین کے متعلق بحث مباحثہ کریں۔ تو الحسن رحمہ اللہ نے جواب دیا:

’’جہاں تک میرا معاملہ ہے تو میں اپنے دین کے بارے میں مکمل بصیرت پر ہوں، آپ اگر اپنے دین سے گمراہ ہوچکے ہیں تو خود اسے ڈھونڈھتے پھریں‘‘۔

 

اور آپ کو امام مالک رحمہ اللہ کا قول بھی سنایا تھاکہ جب کچھ اہل اہوا ان کے پاس آئے او رمجادلہ کرنے کو کہا تو آپ نے فرمایا کہ:

’’جہاں تک میری بات ہے تو میں اپنے رب کی طرف سے واضح دین پر ہوں۔ اور آپ شک کا شکار ہیں، تو پھر اپنے جیسے کسی شک کرنے والے کے پاس جاکر بحث مباحثہ کیجئے‘‘۔

 

تو کیا مخالف کے جو جواب یا حجتیں ہوسکتی ہیں ان میں سے اس سے بڑھ کر سیخ پہ کرکے تپانے والی اور اس کے دل میں غیض وغصہ بھرنے میں اس حجت وجواب سے بڑھ کر کوئی ہوسکتی ہے‘‘۔



تفصیل کے لیے مکمل مقالہ پڑھیں ۔ ۔ ۔


 

0 Comments:

Post a Comment

Subscribe to Post Comments [Atom]

<< Home