کیا جب تک خلافت راشدہ نہ ہو حکمران کی بیعت نہیں کی جائے گی؟ – شیخ صالح بن فوزان الفوزان
کیا جب تک خلافت راشدہ نہ ہو حکمران کی بیعت نہیں کی جائے گی؟
فضیلۃ الشیخ صالح بن فوزان الفوزان رحمہ اللہ
(سنیئر رکن کبار علماء کمیٹی، سعودی عرب)
ترجمہ: طارق علی بروہی
پیشکش: عبدالمومن سلفی
بسم اللہ الرحمن الرحیم
سوال: احسن اللہ الیکم،
فضیلۃ الشیخ، سائل کہتا ہے کہ: بعض ایسے لوگ ہيں جو ولی امر (حکمران) کی بیعت کے
قائل نہیں اور کہتے ہے ان کی بیعت نہیں کی جائے گی جب تک خلافت راشدہ نہ ہو، اس
کلام کی کیا صحت ہے؟
الشیخ: یہ تو خلافت بنو
عباس سے لے کر اب تک کہ تمام مسلمانوں پر طعن ہے۔دولت عباسی کے سقوط کے بعد کبھی
بھی خلافت عامہ نہیں رہی۔ بلکہ ہر خطے یا ملک کا اپنا اپنا مسلمان حکمران ہوتا تھا
جس کی سمع وطاعت کی جاتی تھی۔ دولت بنی عباس کے سقوط سے لے کر اب تک مسلمانوں کا
یہی معاملہ رہا ہے۔ کیا تمام مسلمان گمراہی پر جمع ہوگئے تھے؟ حاشاوکلا! اور آپ نے
(شرح السنۃ للبربہاری میں) سنا کہ جس کسی کے لیے مسلمان اطاعت اختیار کرلیں، اور
اس کے حکم کے تحت آجائیں اور بطور امام اس کی بیعت کرلیں تو وہ ان کا حاکم ہے
اگرچہ وہ تمام مسلمانوں کا امیر عام نہ ہو اگرچہ اس کی حکومت محض کچھ شہروں یا ملکوں
پر ہو۔ یہ مسلمانوں کا عمل رہا ہے۔ اور امام شوکانی رحمہ اللہ کا اس موضوع پر بہت
نفیس کلام موجود ہے([1])۔
(شرح السنۃ للبربہاری کی شرح کیسٹ 6 سوال وجواب1:10
منٹ پر)
[1]
علامہ الشوکانی رحمہ اللہ مصنف کتاب ’’الازھار‘‘ کے اس قول کہ ’’ولا يصح إمامان‘‘
(دو امام (خلیفہ/حکمران) ہونے جائز نہیں) کی شرح میں فرماتے ہیں:
’’لیکن اسلام کے انتشار وچار سو پھیل جانے، اس
کے زیرسایہ ممالک کی توسیع ہوجانے، اور اس کے اکناف واطراف میں کافی دوری ومسافت
ہوجانے کے باعث اب ہر علاقے یا ملک کی ولایت اس کے امام یا سلطان کی ہوگی، اور اسی
طرح سے کسی دوسرے ملک یا علاقے کی بھی اپنی حکومت وولایت ہوگی، کسی دوسرے علاقے کی
حکومت کا امر یا نہی کسی غیرملک پر نافذ نہیں ہوگا بلکہ ہر ملک والے کو اپنی ولایت
یا حکومت کی جانب ہی رجوع کرنا چاہیے۔ متعدد آئمہ وسلاطین ہونے میں کوئی حرج نہیں،
بلکہ ان میں سے ہر ایک کی اپنی بیعت ہوجانے کے بعد اس کے ملک میں اسی کے اوامر
ونواہی نافذ ہوں گے، اسی طرح سے کسی دوسرے خطے یا ملک میں اس خطے کےحکمران وسلطان
کے۔ اور اگر کوئی اس حاکم کے خلاف اس کے ملک میں بغاوت کرے کہ جہاں اس کی ولایت
ثابت ہوچکی ہے اور وہاں کے لوگوں نے اس کی بیعت کرلی ہے، تو اس کا شرعی حکم یہ ہے
کہ اگر وہ توبہ نہ کرے تو اسے قتل کردیا جائے۔ کسی دوسرے اسلامی ملک کے لوگوں پر
اس کی اطاعت واجب نہیں اور نہ ہی اس کی ولایت وحکومت کے ماتحت ہونا ضروری ہے، کیونکہ
ان کے مابین عظیم مسافت حائل ہے کہ جس کی وجہ سے اسے اپنے امام یا سلطان کی خبر ہی
نہ ہوسکے، اور معلوم ہی نہ ہو کہ آیا وہ زندہ بھی ہے یا مرگیا ہے، اب اس حال میں
اس طرح ایک ہی حکمران کی اطاعت کو سب پر لازم کرنا ایسی تکلیف یعنی شرعی فریضہ
ہوگا جو کہ انسانی بساط وطاقت سے باہر ہوگا(جو کہ شریعت میں جائز نہیں)۔ اور یہ
حقیقت تو ہر اس شخص پر آشکارا ہے کہ جو لوگوں اور ممالک کے حالات پر مطلع
ہو۔۔۔ پس اسے اچھی طرح سے جان لیں۔ کیونکہ یہی شرعی قواعد کے اور دلائل جس بات پر
دلالت کرتے ہیں کے زیادہ مناسب حال ہے۔ اور جو کوئی اس کی مخالفت میں بولے تو اس
کی قطعی پرواہ نہ کرو، کیونکہ اول اسلام میں جو اسلامی ولایت وحکومت تھی اور اب جو
اس کی حالت ہے اس میں واضح فرق ازہر من الشمس ہے۔ جو اس حقیقت کا انکاری ہو تو وہ
بہت ہی بیکار وفضول شخص ہے کہ جو کسی حجت ودلیل سے مخاطب کیے جانے کے لائق ہی
نہیں، کیونکہ وہ اسے سمجھ ہی نہیں سکتا‘‘ (السیل الجرار المتدفق علی حدائق
الازھار: 4/512) (توحید خالص ڈاٹ کام)۔
February
17, 2016 | الشيخ صالح بن فوزان الفوزان, عقیدہ ومنہج, مقالات
0 Comments:
Post a Comment
Subscribe to Post Comments [Atom]
<< Home