اہل بدعت ومعاصی کا جنازہ پڑھنےاور ان پر ترحم کا حکم
===========================================================================
شیخ الاسلام ابن
تیمیہ رحمہ اللہ ’’منہاج السنۃ‘‘ (5/235-237) میں فرماتے ہیں:
’’۔۔۔ ہر وہ مسلمان جس کے بارے میں
یہ نہيں معلوم کہ وہ منافق ہے تو اس کے لیے استغفار کرنا اور اس پر نماز پڑھنا
جائز ہے، اگرچہ اس میں کوئی بدعت اور فسق ہو، لیکن ہر ایک پر واجب نہيں کہ وہ اس
کی نماز جنازہ پڑھے۔ اور اگر اپنی بدعت کی طرف دعوت دینے والے، اور فسق
وفجور کو ظاہر کرنے والے پر نماز جنازہ چھوڑنے میں مصلحت ہو تاکہ لوگ آئندہ ایسا
کرنے سے ڈریں تو پھر اس پر نماز پڑھنے سے رک جانا مشروع ہے اس شخص کے لیے کہ جس کی
اس میت پر نماز چھوڑنا لوگوں پر اثر انداز ہوسکتاہے، اور وہ پھر ایسی حرکت سے باز
رہیں گے، تو اسے چاہیےکہ ایسے پر نماز نہ پڑھے۔ جیسا کہ نبی رحمت صلی اللہ علیہ
وآلہ وسلم نے اس شخص کے بارے میں فرمایا کہ جس نے خودکشی کی تھی:
’’صَلُّوا عَلَى
صَاحِبِكُمْ‘‘([1])
(اپنے ساتھی پر
جنازہ پڑھ لو)۔
اسی طرح سے خیانت
کرنے والے پر:
’’صَلُّوا عَلَى
صَاحِبِكُمْ‘‘
(اپنے ساتھی پر
جنازہ پڑھ لو)۔
اور سیدنا سمرۃ بن
جندب رضی اللہ عنہ سے کہا گیا:
’’إِنَّ ابْنَكَ
لَمْ يَنَمِ الْبَارِحَةَ، فَقَالَ: أَبَشِمًا؟ قَالُوا: بَشِمًا، قَالَ: لَوْ
مَاتَ، لَمْ أُصَلِّ عَلَيْهِ‘‘([2])
(آپ کا بیٹا کل
رات سویاہی نہیں۔ انہوں نے فرمایا: کیا بسیار خوری(حد سے زیادہ کھانے) کی وجہ سے؟
کہا لوگوں نے: جی ہاں اسی وجہ سے۔ فرمایا آپ نے کہ: اگر وہ مرگیا تو میں اس پر
جنازہ نہيں پڑھوں گا)۔
یعنی گویا کہ وہ
اپنے نفس کو خود قتل کرنے والا ہے۔۔۔
شیخ زید المدخلی
رحمہ اللہ:
اہل بدعت کی دو
اقسام ہیں:
اہل بدعت کفریہ
یعنی ان کی بدعت انہیں کافر بنادیتی ہے اور اسلام سے خارج کردیتی ہے۔ جیسا کہ
قبروں کی عبادت کرنے والے قبرپرست لوگ ہيں، اور اولیاء وغیرہ سے استغاثہ کرنے
والے، اور جو دین کو گالی دے اور جیسی دیگر بدعات جو کہ کفر ہيں، تو ایسے لوگوں
میں کسی قسم کی خیر نہيں، ان پر بددعاء بھی کی جاسکتی ہے، کیونکہ یہ کفار ہیں۔
اہل بدعت مفسقہ
یعنی جو فاسقوں میں سے ہیں کفار نہيں جیساکہ اہل حزبیات اور ان تنظیموں والے
لوگ جو اہل سنت والجماعت کےمنہج کی مخالفت کرتے ہيں جہاد، نصیحت، امر بالمعروف،
الولاء والبراء وغیرہ ابواب میں۔ ایسو ں کے لیے ہدایت کی دعاء کے ساتھ ساتھ
اگر وہ اسلام پر مرجائيں تو کوئی حرج نہيں کہ ان پر ترحم کیا جائے اور یوں کہہ دیا
جائے کہ: رحمہ اللہ۔
لیکن کوئی اس کی
موت پر افسوس کا اعلان وتشہیر نہ کرتا پھرے کیونکہ وہ بدعتی ہے اور اہل سنت کے
دشمنون میں سے ہے۔ چناچہ اہل سنت اس پر افسوس کا اظہار نہ کریں۔ کیونکہ اس کی موت تو
اہل زمین کے لیے اس کے باقی رہنے سے زیادہ بہتر تھی۔
لہذا اسلام کے حکم
کے اعتبار سے اس پر ترحم کیا جائے گا مگر اس کے اور اپنے مابین بس، اعلان نہيں
کرتے پھرنا۔ کیونکہ اہل بدعت کا اہل سنت پر خطرہ اور دشمنی بالکل واضح ومعلوم
ہے۔۔۔
تفصیل کے لیے مکمل
مقالہ پڑھیں ۔ ۔ ۔
February 25, 2016 | الإمام أحمد بن حنبل,
الامام ابن قدامہ, الشيخ ربيع المدخلي, الشيخ صالح بن فوزان الفوزان,
الشيخ عبد العزيز بن باز,
الشيخ محمد ناصر الدين ألباني, الشیخ احمد بن یحیی النجمی,
الشیخ زید المدخلی, الشیخ صالح آل الشیخ,
الشیخ عبدالعزیز الراجحی,
امام ابو نعیم الاصفہانی,
امام یحیی بن شرف النووی,
حافظ ابن حجر العسقلانی,
شيخ الاسلام ابن تيمية,
عقیدہ ومنہج, فتوی کمیٹی - سعودی عرب,
مقالات |
0 Comments:
Post a Comment
Subscribe to Post Comments [Atom]
<< Home