Friday, February 26, 2016

ان لوگوں کا رد جو سلفیوں کو مدخلیہ اور جامیہ کہتے ہیں


بسم اللہ الرحمن الرحیم

بسم الله، والصلاة والسلام على رسول الله ، وآله وصحبه ومن والاه.

شیخ ربیع المدخلی حفظہ اللہ سے سوال ہوا:

سائل:  شیخنا(رعاکم اللہ)، آپ ان لوگوں کے بارے میں کیا کہیں گے جو جرمنی اور اس کے علاوہ ممالک میں بھی سلفیوں پر مدخلیہ! یا مداخلہ !ہونے کی تہمت لگاتےہیں، اور یہ کہ انہوں نے امت میں تفرقہ ڈال دیا ہے! اور انہوں نے سلفیت کو چھوڑ دیا ہے!، اور انہیں سوائے طعن، جرح وقدح کے کچھ نہیں آتا!، بارک اللہ فیکم، وشفاکم اللہ عزوجل؟

جواب از شیخ ربیع بن ہادی المدخلی حفظہ اللہ :

الحمد لله، والصلاة والسلام على رسول الله، وعلى آله وصحبه ومن اتبع هداه. أما بعد :

اہل سنت والجماعت تو صرف سیدنا محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے علاوہ کسی کے متبعین نہيں ہوتے۔اور وہ بس کتاب اللہ اور سنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اتباع کرتےہيں اپنے عقیدے، منہج، سیاست، اخلاق اور تمام شعبہ ہائے زندگی میں۔ اسی کی اتباع کرتے ہيں اور بدعات ایجاد نہیں کرتے۔ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور سلف صالحین کی اہل بدعت سے تحذیر (خبردار) کرنےکے سبب سے اسی منہج پر گامزن رہتے ہیں۔ اور جو ان کی مخالفت کرتے ہوئے انہیں جامیہ! اور مدخلیہ! کے القابات سے تہمت لگاتاہے وہ گمراہ ہے۔ وہ سنت اور سلفی منہج سے جنگ کرنے والے کے سوا اور کوئی نہیں ہوسکتا۔

پس اپنے بارے میں اللہ تعالی سے ڈرو، اور اس قسم کے فاجر القابات چسپاں کرنے کو ترک کردو! اللہ تعالی سے ڈرو اور ہمیشہ سیدھی ، سچی اور کھری بات کرو:

﴿يٰٓاَيُّهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوا اتَّقُوا اللّٰهَ وَقُوْلُوْا قَوْلًا سَدِيْدًا،  يُّصْلِحْ لَكُمْ اَعْمَالَكُمْ وَيَغْفِرْ لَكُمْ ذُنُوْبَكُمْ ۭ  وَمَنْ يُّطِعِ اللّٰهَ وَرَسُوْلَهٗ فَقَدْ فَازَ فَوْزًا عَظِيْمًا (الاحزاب: 70-71)

(اے لوگو جو ایمان لائے ہو ! اللہ سے ڈرو اور بالکل سیدھی بات کہو، وہ تمہارے لیے تمہارے اعمال درست کر دے گا اور تمہارے لیے تمہارے گناہ بخش دے گا اور جو اللہ اور اس کے رسول کی فرماں برداری کرے تو یقیناً اس نے کامیابی حاصل کرلی، بہت بڑی کامیابی)

کیا تم لوگ ان سلفیوں سے محض اس بات کا انتقام لے رہے ہو اور انہیں ان القابات سے نواز رہے ہو کہ وہ کتاب اللہ اور سنت رسول اللہ e سے تمسک اختیار کرتے ہیں؟! آخر وہ کونسی بدعات ہے ان کے پاس جس کی بنا پر تم انہیں مدخلیہ اور جامیہ پکار سکو؟! کونسی بدعات ہیں ان کے پاس؟!۔

ہم جانتے ہیں تبلیغی جماعت، اخوان المسلمین اور قطبی لوگ ان کے یہاں اصول وفروع میں بدعات اور گمراہیاں ہیں ! ہم انہیں نصیحت کرتے ہیں اور ان کے سامنے حق بات کی وضاحت کرتے ہیں (بارک اللہ فیکم)۔ جسے اللہ تعالی توفیق دیتا ہے تو وہ حق وصواب کی جانب رجوع کرلیتا ہےاور سلف کے طریقے پر چلنے لگتا ہے۔ اور جسے اللہ تعالی چھوڑ دیتا ہے اور اس کے لیے خیر کا ارادہ نہیں فرماتا تو وہ اپنی طغیانی وظلم میں ہی بڑھتا رہتا ہے۔

وصلى الله على نبينا محمد وعلى آله وصحبه وسلم .

سائل: شیخنا وہ کہتے ہیں کہ ہم سوریا (شام)اور عراق میں مسلمانوں کے قتل عام ہونے سے خوش ہوتے ہیں! اور جہاد کو ہم نے سوریا اور عراق میں تو معطل قرار دے دیا لیکن یمن میں اسی جہاد سے خوش ہیں!؟۔

شیخ: یہ جھوٹ بولتے ہیں اللہ کی قسم! یہ جھوٹ بولتے ہیں اللہ کی قسم! اللہ کی قسم ہے کہ ہم ان سے کئی گنا بڑھ کر روافض (شیعہ) اور باطنیوں (اسماعیلیوں) کی مخالفت کرتے ہيں؛ یہ تو خود روافض کے بھائی بند ہیں! ان کے ساتھ ساتھ رہتے ہیں! اور تمام اہل بدعت کے بھائی بنے رہتے ہیں!۔

جبکہ ہم تمام اہل بدعت کی ضد اور مخالفت میں پیش پیش رہتے ہیں۔ روافض کی ڈٹ کر مخالفت کرتے ہیں اور ان کے آئمہ کی تکفیر بھی کرتے ہیں۔ اور ان کے کفر کو یہودونصاری سے بھی بڑا سمجھتے ہیں۔  لیکن جو لوگ ان کے شانہ بشانہ کھڑے ہوتے ہیں ہم انہیں دیکھتے ہیں کہ وہ اسلام کاجھنڈا بلند نہیں کرتے جبکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:

’’مَنْ قَاتَلَ لِتَكُونَ كَلِمَةُ اللَّهِ هِيَ الْعُلْيَا فَهُوَ فِي سَبِيلِ اللَّهِ‘‘([1])

(جو کوئی اس لیے قتال کرتا ہے تاکہ اللہ کا کلمہ بلند تو صرف وہ فی سبیل اللہ ہے)۔

بارک اللہ فیک۔ یہ لوگ اعلائے کلمۃ اللہ کے لیے نہیں لڑتے! ہاں البتہ ان کی صفوں میں بہت سے فریب خوردہ مسکین لوگ ہوتے ہیں! لیکن ان کے علمدار لوگ اسلام کے طریقے اور سنت پر نہیں ہوتے! نہ یہ توحید، سنت اور لا الہ الااللہ کا جھنڈا بلند کرنے والے ہیں! بلکہ یہ لوگ تو جمہوریت کا عَلَم بلند کرنے والے ہیں!۔ اور یہ بھرپور طریقے سے مستعد وتیار ہیں کہ اگر بشار الاسد کا خاتمہ ہوا تو یہ روافض اور باطنیوں سے ہاتھ ملا لیں گے!۔

سائل: أحسن الله إليكم شيخنا وبارك الله فيك و

شیخ: زمین میں فساد برپا کرنے کا سبب خود یہی لوگ ہیں۔ یہی لوگ تو ہیں جنہوں نے مصر اور سوڈان اور ہر جگہ فتنہ اور قتل وغارت کو پھیلا رکھا ہے! ہر جگہ اپنی اس گمراہی کو پھیلا رکھاہے۔ یہی لوگ سبب ہیں سوریا کی مسکین عوام کو دربدر کرنے کا۔ انہوں نے ان پر ظلم کیا ہے۔ انہیں کوئی پرواہ نہیں اس دربدر ہونے اور ان ہلاکتوں کی! لاکھوں لوگ ان کے فتنے اور باطنیوں کے فتنے کے سبب ہلاکت وتباہی کا شکار ہوگئے۔

سائل: جزاكم الله خيراً  اور میں جرمنی میں علامہ تقی الدین ہلالی رحمہ اللہ کی مسجد سے آپ کے بھائیو ں اور بیٹوں کا سلام آپ تک پہنچاتا ہوں ۔

شیخ ربیع: حياكم الله اور ہمارا سلام بھی ان تک پہنچائیں جزاكم الله خيراً۔

سائل: جزاك الله خيراً ۔

(اس ملاقات کی ریکارڈنگ بعد نماز مغرب، بروز منگل، 27 صفر سن 1435ھ بمطابق 3دسمبر2013ع کو تسجیلات البصیرۃ نے کی، ہم آپ کے لیے علم نافع اور عمل صالح کی تمنا کرتے ہیں، اس کلام کی تفریغ خمیس بن ابراہیم المالکی نے ویب سائٹ لیبیا السلفیۃ کے لیے کی)۔

مزید علماء کرام کے کلام کے لیے مکمل مقالہ پڑھیں ۔ ۔ ۔



[1] صحیح بخاری 123، صحیح مسلم 1906۔


 

اہل بدعت ومعاصی کا جنازہ پڑھنےاور ان پر ترحم کا حکم

===========================================================================

شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ ’’منہاج السنۃ‘‘ (5/235-237) میں فرماتے ہیں:

’’۔۔۔ ہر وہ مسلمان جس کے بارے میں یہ نہيں معلوم کہ وہ منافق ہے تو اس کے لیے استغفار کرنا اور اس پر نماز پڑھنا جائز ہے، اگرچہ اس میں کوئی بدعت اور فسق ہو، لیکن ہر ایک پر واجب نہيں کہ وہ اس کی نماز جنازہ پڑھے۔  اور اگر اپنی بدعت کی طرف دعوت دینے والے، اور فسق وفجور کو ظاہر کرنے والے پر نماز جنازہ چھوڑنے میں مصلحت ہو تاکہ لوگ آئندہ ایسا کرنے سے ڈریں تو پھر اس پر نماز پڑھنے سے رک جانا مشروع ہے اس شخص کے لیے کہ جس کی اس میت پر نماز چھوڑنا لوگوں پر اثر انداز ہوسکتاہے، اور وہ پھر ایسی حرکت سے باز رہیں گے، تو اسے چاہیےکہ ایسے پر نماز نہ پڑھے۔ جیسا کہ نبی رحمت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس شخص کے بارے میں فرمایا کہ جس نے خودکشی کی تھی:

’’صَلُّوا عَلَى صَاحِبِكُمْ‘‘([1])

(اپنے ساتھی پر جنازہ پڑھ لو)۔

اسی طرح سے خیانت کرنے والے پر:

’’صَلُّوا عَلَى صَاحِبِكُمْ‘‘

(اپنے ساتھی پر جنازہ پڑھ لو)۔

اور سیدنا سمرۃ بن جندب رضی اللہ عنہ سے کہا گیا:

’’إِنَّ ابْنَكَ لَمْ يَنَمِ الْبَارِحَةَ، فَقَالَ: أَبَشِمًا؟ قَالُوا: بَشِمًا، قَالَ: لَوْ مَاتَ، لَمْ أُصَلِّ عَلَيْهِ‘‘([2])

(آپ کا بیٹا کل رات سویاہی نہیں۔ انہوں نے فرمایا: کیا بسیار خوری(حد سے زیادہ کھانے) کی وجہ سے؟ کہا لوگوں نے: جی ہاں اسی وجہ سے۔ فرمایا آپ نے کہ: اگر وہ مرگیا تو میں اس پر جنازہ نہيں پڑھوں گا)۔

یعنی گویا کہ وہ اپنے نفس کو خود قتل کرنے والا ہے۔۔۔

شیخ زید المدخلی رحمہ اللہ:

اہل بدعت کی دو اقسام ہیں:

اہل بدعت کفریہ یعنی ان کی بدعت انہیں کافر بنادیتی ہے اور اسلام سے خارج کردیتی ہے۔ جیسا کہ قبروں کی عبادت کرنے والے قبرپرست لوگ ہيں، اور اولیاء وغیرہ سے استغاثہ کرنے والے، اور جو دین کو گالی دے اور جیسی دیگر بدعات جو کہ کفر ہيں، تو ایسے لوگوں میں کسی قسم کی خیر نہيں، ان پر بددعاء بھی کی جاسکتی ہے، کیونکہ یہ کفار ہیں۔

اہل بدعت مفسقہ یعنی جو فاسقوں میں سے ہیں کفار نہيں جیساکہ  اہل حزبیات اور ان تنظیموں والے لوگ جو اہل سنت والجماعت کےمنہج کی مخالفت کرتے ہيں جہاد، نصیحت، امر بالمعروف، الولاء والبراء وغیرہ ابواب میں۔ ایسو ں کے لیے ہدایت کی دعاء  کے ساتھ ساتھ اگر وہ اسلام پر مرجائيں تو کوئی حرج نہيں کہ ان پر ترحم کیا جائے اور یوں کہہ دیا جائے کہ: رحمہ اللہ۔

لیکن کوئی اس کی موت پر افسوس کا اعلان وتشہیر نہ کرتا پھرے کیونکہ وہ بدعتی ہے اور اہل سنت کے دشمنون میں سے ہے۔ چناچہ اہل سنت اس پر افسوس کا اظہار نہ کریں۔ کیونکہ اس کی موت تو اہل زمین کے لیے اس کے باقی رہنے سے زیادہ بہتر تھی۔

لہذا اسلام کے حکم کے اعتبار سے اس پر ترحم کیا جائے گا مگر اس کے اور اپنے مابین بس، اعلان نہيں کرتے پھرنا۔ کیونکہ اہل بدعت کا اہل سنت پر خطرہ اور دشمنی بالکل واضح ومعلوم ہے۔۔۔

تفصیل کے لیے مکمل مقالہ پڑھیں ۔ ۔ ۔



[1] صحیح بخاری 2291 وغیرہ۔

[2] السنۃ لابی بکر بن الخلال 1641۔


 

Saturday, February 20, 2016

دعوت الی اللہ کے بنیادی اصول – شیخ صالح بن فوزان الفوزان


 

دعوت الی اللہ کے بنیادی اصول – شیخ صالح بن فوزان الفوزان
اس مقالے میں شیخ صالح الفوزان حفظہ اللہ نے مندرجہ ذیل 7 اہم نکات ذکر فرما کر دو اقسام کے دینی رجحانات رکھنے والی جماعتوں کی غلطی پر تنبیہ فرمائی ہے

1- دعوت الی اللہ کا علم

2- عمل

3-  اخلاص

4-  اہم اصول سے دعوت شروع کی جائے

5-  دعوت الی اللہ کے راستے میں آنے والی مصیبتوں پر صبرکرنا

6- اخلاق حسنہ

7- قوی امید

تفصیل کے لیے مکمل مقالہ پڑھیں۔


www.talashhaq.blogspot.com


 

 

اہل بدعت سے مناظرے کے بارے میں سلفی مؤقف – مختلف علماء کرام


(اہل بدعت سے مناظرے کے بارے میں سلفی مؤقف – مختلف علماء کرام)
امام عبید اللہ بن محمد بن بطہ العکبری رحمہ اللہ آپ اپنی کتاب ’’الإبانة عن شريعة الفرقة الناجية ومجانبة الفرق المذمومة (2/540-541رقم:679تحقيق رضا نعسان‘‘ میں فرماتے ہیں :

’’اگر کہنے والا کہے کہ: یقیناً آپ نے ہمیں جھگڑنے وجدال ومناظرے سے منع کیا، اور ہم نے یہ اچھی طرح سے جان لیا کہ یہی حق ہے، اور یہی علماء کرام کاراستہ ہے اور صحابہ کرام، مومنین میں سے عقل مندوں اور بصیرت رکھنے والے علماء کرام کی راہ ہے۔ پھر اگر کوئی شخص میرے پاس آئے اور ان اہوا (بدعات) میں سے کسی چیز کے متعلق سوال پوچھے جو ظاہر ہوئی ہیں، اور ان قبیح مذاہب کے بارے میں جو عام ہوئے ہیں، اور وہ مجھ سے ان میں سے کسی چیز کے بارے میں بات کرے اور جواب طلب کرے، اور میں ان میں سے ہوں جنہيں اللہ کریم نے اس بارے میں علم دیا ہو، ایسے بصیرت دی ہو جو ان شبہات کو زائل کرنے والی ہو، تو کیا پھر بھی میں بس اسے چھوڑ دوں کہ وہ کلام کرتا رہے اور کچھ جواب نہ دوں، اور اسے، اس کی اہوا وبدعت  کو یونہی چھوڑ دوں، اس کے قبیح مقالے کا اس پر رد نہ کروں؟

میں بے شک میں ایسے کو کہوں گا کہ: یا بات جان لو اے بھائی اللہ تعالی آپ پر رحم فرمائے  کہ بلاشبہ جس شخص کی طرف سے آپ اس آزمائش میں مبتلا ہوئے ہیں  اس کا حال تین میں سے ایک ضرور ہوگا:

1- یا تو وہ ایسا شخص ہوگا جس کے حسن طریقہ، اچھے مذہب اور سلامتی سے محبت کو آپ جانتے ہيں، اور اس کے قصد وارادے کو بھی جانتے ہیں کہ وہ استقامت چاہتا ہے، لیکن بس اس کے کان میں ان لوگوں کی کوئی بات پڑ گئی ہو جن کے دلوں میں شیاطین کا بسیرا ہے، اور وہ ان کی زبانوں سے قسما قسم کے کفریات نکلواتا ہے، پس یہ شخص جس آزمائش میں مبتلا ہوگیا ہے ان کی وجہ سے اس سے نکلنے کی راہ نہیں پارہا، تو پھر ایسے شخص کا سوال واقعی رہنمائی چاہنے والے کا سوال ہوگا، جس آزمائش میں وہ مبتلا ہوا ہے اس سے چھٹکارا چاہتا ہے، اور جس چیز سے تکلیف دیا گیا اس سے شفاء چاہتا ہے (عبارت غیر واضح۔۔۔) آپ کے علم کی طرف، اس کی حاجت آپ کی طرف ایسی ہے جیسے ایک پیاسے کو پیاس بجھانے والے صاف پانی کی ضرورت ہوتی ہے، اور آپ نے اس کی تابع فرمانی کو بھانپ لیا ہے، اور اس کی مخالفت سے امن میں ہیں(یعنی وہ مخالفت نہيں کرے گا اس کا اطمئنان ہے)،  تو یہ واقعی ایسا شخص ہے کہ جس کی رہنمائی کرنا اور شیطان کے مکروفریب سے بچا کر اسے سیدھی راہ دکھانا آپ پر واجب ہے۔ اور جس چیز کی جانب آپ اسے رہنمائی کریں، اور اسی پر رک جانے کی نصیحت کریں وہ کتاب وسنت اور اس امت کے علماء کرام جیسے صحابہ وتابعین کے صحیح آثار ہوں۔ اور یہ سب کچھ حکمت اور اچھے انداز میں وعظ ونصیحت کے ساتھ ہونا چاہیے۔  اور آپ کو اس چیز کے بارے میں خوامخواہ تکلف کرنے کی ضرورت نہيں جس کا آپ کو علم نہيں، پھر رائے پر انحصار کرنے لگیں، اور کلام کی باریک ودقیق تفصیلات میں گھسنے کی ضرورت نہیں، کیونکہ آپ کی یہ حرکت کرنا بدعت میں سے ہوگا، اگرچہ آپ کا ارادہ اس سے سنت کو چاہنے کا تھا۔ کیونکہ بلاشبہ آپ کا حق کا ارادہ کرنا مگر ناحق طریقے سے باطل ہے۔ اور آپ کا سنت پر کلام کرنا مگر غیر سنت طریقے سے بدعت ہے۔ اپنے ساتھی کے لیے شفاء کی تلاش خود کو مریض کرکے نہ کرو۔ نہ ہی اس کی اصلاح خود کو فساد میں ڈال کر کرو۔ کیونکہ بلاشبہ وہ لوگوں کی خیرخواہی کرہی نہيں سکتا جو اپنے ہی نفس کو دھوکہ دیتا ہو۔ جس کے اندر خود اپنے نفس کے لیے ہی خیر نہ ہو تو پھر کسی دوسرے کے لیے بھی اس میں خیر نہيں۔ پس جس کو اللہ تعالی چاہے گا اسے توفیق دے دے گا اور سیدھی راہ سجھا دے گا، اور جو بھی اللہ تعالی سے ڈرتا ہے وہ اس کی مدد ونصرت فرماتا ہے۔۔۔

لہذا اگر آپ کے سائل کہ یہ اوصاف ہوں، اور آپ کا جواب بھی اس طرح سے ہو جو ہم نے ابھی وضاحت کے ساتھ بیان کیا، اس میں بار بار محنت کی ضرورت بھی نہیں ہوگی۔ یہ ہے گزرے ہوئے ان علماء کرام کا راستہ جنہیں اللہ تعالی نے اس دین کی قدرآور شخصیات بنایا۔ تو یہ ان تین میں سے ایک شخص تھا۔

 

2- دوسرا شخص جو آپ کی مجلس میں حاضر ہوتاہے، جہاں آپ بھی حاضر ہیں اور اس سے اپنے نفس کے بارے میں امن میں ہیں، اور ساتھ میں آپ کے باکثرت مددگار ومعاونین (طرفداری کرنے والے) موجود ہیں، پس یہ شخص آکر ایسا کلام کرتا ہے جس میں سننے والوں کے دلوں کے لیےفتنہ وآزمائش ہو،  تاکہ وہ ان کو شک میں مبتلا کردے، کیونکہ وہ خود ان لوگوں میں سے ہے کہ جن کے دلوں میں کجی وٹیڑھ پن ہوتا ہے، جو متشابہ کے پیچھے لگتے ہیں بدعت وفتنہ مچانے کو۔ اور آپ کے ساتھ وہ لوگ حاضر ہیں آپ کے بھائیوں ساتھیوں میں سے جو آپ کے اہل مذہب ہيں کہ آپ کا کلام سنتے ہيں، لیکن یہ بات ہے کہ اس شخص کے مقابلے میں ان کے پاس کوئی حجت نہ ہو، نہ انہيں یہ شخص جو کچھ (بات) لے کر آیا ہے اس کی قباحت کا کچھ اندازہ تھا۔ اب اگر وہ اس سے خاموش ہوجاتا ہے تو پھر سامعین کے دل اس کے فتنے سے محفوظ نہیں، عقل مندوں پر بھی شک داخل کرسکتا ہے۔ لہذا یہ شخص بھی انہی میں سے جن کی بدعت کا اور ان کے خبیث مقالے کا آپ رد کریں، اور جو کچھ اللہ تعالی نے علم وحکمت دیا ہے اسے نشر کریں۔ یہاں آپ کے کلام سے مقصد اس سے جھگڑا یا مناظرہ کرنا نہيں۔ بلکہ آپ کے کلام کا مقصد اپنے بھائیوں کو اس کے جال سے بچانا ہو۔ کیونکہ ملحدوں کے جو خبیث لوگ ہوتے ہیں وہ شیطانوں کے جال کو پھینکتے ہیں تاکہ اس کے ذریعے مومنین کا شکار کیا جائے۔ پس آپ اپنے کلام سے اس کا مقابلہ وسامنا کریں، اپنے علم وحکمت کو نشر کریں اور اپنے ساتھیوں سے اور جو حاضرین ہیں ان سے خندہ پیشانی سے او رفصیح منطق کے ساتھ بات کریں یہاں تک کہ ان سب کو اس شخص سے کاٹ دیں، اور ان کے اور اس کی بات سننے کے مابین حائل ہوجائیں۔  بلکہ اگر آپ کو قدرت ہو تو علم کی کسی قسم سے اس کی قطع کلامی  کرلیں جس کے ذریعے سے لوگوں کی توجہ اور اس کے مابین حائل ہوسکیں تو ہوجائیں۔۔۔

پس یہ دو قسم کے اشخاص ہيں جن کا حال آپ نے جان لیا، اور میں نے ان دونوں کے کلام کرنے کی وجہ کا خلاصہ آپ کے سامنےبیان کردیا ہے۔

 

3- تیسرا وہ منحوس شخص جس کا دل ٹیڑھا ہوچکا ہے، اور اس کے قدم ہدایت کی راہ سے پھسل چکے ہیں، اور بصارت اندھی ہوچکی ہے، بدعت کی نصرت کرنے میں بالکل ڈٹا ہوا ہے، اس کی کوشش  یقین میں شک پیدا کرنے کی ہے اور آپ پر صحیح دین کو فاسد کردینے کی ہے۔ پس جو کچھ ہم نے اس باب میں روایت وحکایت آپ کے لیے بیان کی وہ سب اسی کی وجہ اور سبب سے تھی۔ کیونکہ بلاشبہ آپ کبھی بھی اس کی باتوں کو روکنے اور اس کے مکر کو پھیرنے کے لیے اس سے بہترین طریقہ نہيں پاسکتے کہ اس کے جواب دینےسے رک جائيں، اور اسے مخاطب کرنے سے ہی اعراض کریں، کیونکہ اس کی آپ سے مناظرہ کرنے کی غرض یہی تو ہے کہ وہ آپ کو فتنے میں مبتلا کرے اور آپ اس کی پیروی کرنے لگ جائیں۔ تو وہ آپ کو قابو کرلے، چناچہ آپ سے جو وہ مایوس ہوا ہے اس کا غصہ نکالنے کے لیے وہ چاہتا ہے کہ آپ اپنے دین کے تعلق سے جس بات کو ناپسند کرتے ہیں وہ سنوائے، تو آپ کو چاہیے کہ اس سے اپنے کو روک کر اسے نامراد کردیں، اور اس سے تعلق توڑ کر اسے ذلیل کردیں، کیا میں نے آپ کو الحسن رحمہ اللہ کا قول نہیں سنایا تھا کہ جب ان سے کسی کہنے والے نے کہا کہ: اے ابو سعید! آئیں ہم دین کے متعلق بحث مباحثہ کریں۔ تو الحسن رحمہ اللہ نے جواب دیا:

’’جہاں تک میرا معاملہ ہے تو میں اپنے دین کے بارے میں مکمل بصیرت پر ہوں، آپ اگر اپنے دین سے گمراہ ہوچکے ہیں تو خود اسے ڈھونڈھتے پھریں‘‘۔

 

اور آپ کو امام مالک رحمہ اللہ کا قول بھی سنایا تھاکہ جب کچھ اہل اہوا ان کے پاس آئے او رمجادلہ کرنے کو کہا تو آپ نے فرمایا کہ:

’’جہاں تک میری بات ہے تو میں اپنے رب کی طرف سے واضح دین پر ہوں۔ اور آپ شک کا شکار ہیں، تو پھر اپنے جیسے کسی شک کرنے والے کے پاس جاکر بحث مباحثہ کیجئے‘‘۔

 

تو کیا مخالف کے جو جواب یا حجتیں ہوسکتی ہیں ان میں سے اس سے بڑھ کر سیخ پہ کرکے تپانے والی اور اس کے دل میں غیض وغصہ بھرنے میں اس حجت وجواب سے بڑھ کر کوئی ہوسکتی ہے‘‘۔



تفصیل کے لیے مکمل مقالہ پڑھیں ۔ ۔ ۔


 

Wednesday, February 17, 2016

کیا جب تک خلافت راشدہ نہ ہو حکمران کی بیعت نہیں کی جائے گی؟ – شیخ صالح بن فوزان الفوزان


کیا جب تک خلافت راشدہ نہ ہو حکمران کی بیعت نہیں کی جائے گی؟

فضیلۃ الشیخ صالح بن فوزان الفوزان رحمہ اللہ

(سنیئر رکن کبار علماء کمیٹی، سعودی عرب)

ترجمہ: طارق علی بروہی
 
 پیشکش: عبدالمومن سلفی
 
مصدر: شرح السنۃ للبربہاری کی شرح کیسٹ 6 سوال وجواب۔




بسم اللہ الرحمن الرحیم

سوال: احسن اللہ الیکم، فضیلۃ الشیخ، سائل کہتا ہے کہ: بعض ایسے لوگ ہيں جو ولی امر (حکمران) کی بیعت کے قائل نہیں اور کہتے ہے ان کی بیعت نہیں کی جائے گی جب تک خلافت راشدہ نہ ہو، اس کلام کی کیا صحت ہے؟

الشیخ: یہ تو خلافت بنو عباس سے لے کر اب تک کہ تمام مسلمانوں پر طعن ہے۔دولت عباسی کے سقوط کے بعد کبھی بھی خلافت عامہ نہیں رہی۔ بلکہ ہر خطے یا ملک کا اپنا اپنا مسلمان حکمران ہوتا تھا جس کی سمع وطاعت کی جاتی تھی۔ دولت بنی عباس کے سقوط سے لے کر اب تک مسلمانوں کا یہی معاملہ رہا ہے۔ کیا تمام مسلمان گمراہی پر جمع ہوگئے تھے؟ حاشاوکلا! اور آپ نے (شرح السنۃ للبربہاری میں) سنا کہ جس کسی کے لیے مسلمان اطاعت اختیار کرلیں، اور اس کے حکم کے تحت آجائیں اور بطور امام اس کی بیعت کرلیں تو وہ ان کا حاکم ہے اگرچہ وہ تمام مسلمانوں کا امیر عام نہ ہو اگرچہ اس کی حکومت محض کچھ شہروں یا ملکوں پر ہو۔ یہ مسلمانوں کا عمل رہا ہے۔ اور امام شوکانی رحمہ اللہ کا اس موضوع پر بہت نفیس کلام موجود ہے([1])۔

(شرح السنۃ للبربہاری کی شرح کیسٹ 6 سوال وجواب1:10 منٹ پر)



[1] علامہ الشوکانی رحمہ اللہ مصنف کتاب ’’الازھار‘‘ کے اس قول کہ ’’ولا يصح إمامان‘‘ (دو امام (خلیفہ/حکمران) ہونے جائز نہیں) کی شرح میں فرماتے ہیں:

’’لیکن اسلام کے انتشار وچار سو پھیل جانے، اس کے زیرسایہ ممالک کی توسیع ہوجانے، اور اس کے اکناف واطراف میں کافی دوری ومسافت ہوجانے کے باعث اب ہر علاقے یا ملک کی ولایت اس کے امام یا سلطان کی ہوگی، اور اسی طرح سے کسی دوسرے ملک یا علاقے کی بھی اپنی حکومت وولایت ہوگی، کسی دوسرے علاقے کی حکومت کا امر یا نہی کسی غیرملک پر نافذ نہیں ہوگا بلکہ ہر ملک والے کو اپنی ولایت یا حکومت کی جانب ہی رجوع کرنا چاہیے۔ متعدد آئمہ وسلاطین ہونے میں کوئی حرج نہیں، بلکہ ان میں سے ہر ایک کی اپنی بیعت ہوجانے کے بعد اس کے ملک میں اسی کے اوامر ونواہی نافذ ہوں گے، اسی طرح سے کسی دوسرے خطے یا ملک میں اس خطے کےحکمران وسلطان کے۔ اور اگر کوئی اس حاکم کے خلاف اس کے ملک میں بغاوت کرے کہ جہاں اس کی ولایت ثابت ہوچکی ہے اور وہاں کے لوگوں نے اس کی بیعت کرلی ہے، تو اس کا شرعی حکم یہ ہے کہ اگر وہ توبہ نہ کرے تو اسے قتل کردیا جائے۔ کسی دوسرے اسلامی ملک کے لوگوں پر اس کی اطاعت واجب نہیں اور نہ ہی اس کی ولایت وحکومت کے ماتحت ہونا ضروری ہے، کیونکہ ان کے مابین عظیم مسافت حائل ہے کہ جس کی وجہ سے اسے اپنے امام یا سلطان کی خبر ہی نہ ہوسکے، اور معلوم ہی نہ ہو کہ آیا وہ زندہ بھی ہے یا مرگیا ہے، اب اس حال میں اس طرح ایک ہی حکمران کی اطاعت کو سب پر لازم کرنا ایسی تکلیف یعنی شرعی فریضہ ہوگا جو کہ انسانی بساط وطاقت سے باہر ہوگا(جو کہ شریعت میں جائز نہیں)۔ اور یہ حقیقت تو ہر اس شخص پر آشکارا ہے کہ جو لوگوں اور ممالک  کے حالات پر مطلع ہو۔۔۔ پس اسے اچھی طرح سے جان لیں۔ کیونکہ یہی شرعی قواعد کے اور دلائل جس بات پر دلالت کرتے ہیں کے زیادہ مناسب حال ہے۔ اور جو کوئی اس کی مخالفت میں بولے تو اس کی قطعی پرواہ نہ کرو، کیونکہ اول اسلام میں جو اسلامی ولایت وحکومت تھی اور اب جو اس کی حالت ہے اس میں واضح فرق ازہر من الشمس ہے۔ جو اس حقیقت کا انکاری ہو تو وہ بہت ہی بیکار وفضول شخص ہے کہ جو کسی حجت ودلیل سے مخاطب کیے جانے کے لائق ہی نہیں، کیونکہ وہ اسے سمجھ ہی نہیں سکتا‘‘ (السیل الجرار المتدفق علی حدائق الازھار: 4/512) (توحید خالص ڈاٹ کام)۔


 

سلفی منہج میں جماعت کو لازم پکڑنا اور حکمرانوں کی سماع واطاعت کرنا – شیخ محمد بن عمر بازمول


شیخ محمد بن عمر بازمول حفطہ اللہ فرماتے ہیں:

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حکمرانوں کی اطاعت کو ایک عظیم معاملہ قرار دیا۔ پس آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے جہنم کے دروازوں پر دعوت دینے والے داعیوں سے نجات کی سبیل مسلمانوں کی جماعت اور ان کے امام کو لازم پکڑنے کو قرار دیا۔

 بسر بن عبید الحضرمی سے روایت ہے کہ انہیں ابوادریس الخولانی نے حدیث بیان کی کہ انہوں نے سیدناحذیفہ بن یمان رضی اللہ عنہ کو فرماتے ہوئے سنا:

’’كَانَ النَّاسُ يَسْأَلُونَ رَسُولَ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم عَنِ الْخَيْرِ وَكُنْتُ أَسْأَلُهُ عَنِ الشَّرِّ مَخَافَةَ أَنْ يُدْرِكَنِي، فَقُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ إِنَّا كُنَّا فِي جَاهِلِيَّةٍ وَشَرٍّ فَجَاءَنَا اللَّهُ بِهَذَا الْخَيْرِ فَهَلْ بَعْدَ هَذَا الْخَيْرِ مِنْ شَرٍّ، قَالَ: نَعَمْ، قُلْتُ: وَهَلْ بَعْدَ ذَلِكَ الشَّرِّ مِنْ خَيْرٍ؟ قَالَ: نَعَمْ وَفِيهِ دَخَنٌ، قُلْتُ: وَمَا دَخَنُهُ؟، قَالَ: قَوْمٌ يَهْدُونَ بِغَيْرِ هَدْيِي تَعْرِفُ مِنْهُمْ وَتُنْكِرُ، قُلْتُ: فَهَلْ بَعْدَ ذَلِكَ الْخَيْرِ مِنْ شَرٍّ؟ قَالَ: نَعَمْ دُعَاةٌ إِلَى أَبْوَابِ جَهَنَّمَ مَنْ أَجَابَهُمْ إِلَيْهَا قَذَفُوهُ فِيهَا، قُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ صِفْهُمْ لَنَا، فَقَالَ: هُمْ مِنْ جِلْدَتِنَا وَيَتَكَلَّمُونَ بِأَلْسِنَتِنَا، قُلْتُ: فَمَا تَأْمُرُنِي إِنْ أَدْرَكَنِي ذَلِكَ، قَالَ: تَلْزَمُ جَمَاعَةَ الْمُسْلِمِينَ وَإِمَامَهُمْ، قُلْتُ: فَإِنْ لَمْ يَكُنْ لَهُمْ جَمَاعَةٌ وَلَا إِمَامٌ؟ قَالَ: فَاعْتَزِلْ تِلْكَ الْفِرَقَ كُلَّهَا وَلَوْ أَنْ تَعَضَّ بِأَصْلِ شَجَرَةٍ حَتَّى يُدْرِكَكَ الْمَوْتُ وَأَنْتَ عَلَى ذَلِكَ‘‘([1])

(لوگ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے خیرکی بابت سوال کیا کرتے تھے جبکہ میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے شر کے متعلق دریافت کیا کرتا تھا، اس خوف سے کہ کہیں میں اس میں مبتلا نہ ہوجاؤ۔ چناچہ میں نے پوچھا اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہم جاہلیت اور شر میں تھے  پس اللہ تعالی ہمارے لیے یہ خیر لے آیا ، تو کیا اس خیر کے بعد بھی کوئی شر ہوگا؟ آپ نے فرمایا: ہاں۔ میں نے پوچھا کہ کیا اس شر کے بعد پھر سے خیر ہوگا؟  آپ نے فرمایا: ہاں لیکن اس میں دخن (دھبہ) (دلوں میں میل) بھی ہوگا۔ میں نے پوچھا: اس کا دخن کیا ہوگا؟ فرمایا: ایسی قوم ہوگی جو میرے طریقے کے علاوہ کسی اور طریقے کو اپنا لیں گے، ان کی کچھ باتیں تمہیں بھلی معلوم ہوں گی اور کچھ منکر۔  میں نے کہا کہ کیا اس خیر کے بعد بھی کوئی شر ہوگا؟ فرمایا: ہاں، ایسے داعیان ہوں گے جو جہنم کے دروازوں کی طرف دعوت دیں گےجو ان کی دعوت قبول کرلے گا وہ اسے جہنم واصل کروادیں گے۔ میں نے کہا اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہمارے لیے ان کے اوصاف بیان کریں؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: وہ ہماری ہی قوم میں سے ہوں گے اور ہماری ہی زبان بولتے ہوں گے([2])۔ میں نے کہا: آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مجھے کیا حکم دیتے ہیں اگر میں انہیں پالوں؟ فرمایا: تم مسلمانوں کی جماعت اور ان کے امام کو لازم پکڑو۔ میں نے کہا: اگر ان کی کوئی جماعت ہی نہ ہو اور نہ ہی امام؟  فرمایا: تو پھر ان تمام فرقوں سے علیحدہ ہوجانا اگرچہ تجھے درخت کی جڑیں چبا کر ہی گزارا کیوں نہ کرنا پڑے یہاں تک کہ تجھے اسی حال میں موت آجائے)۔

بلکہ اس حدیث کی ایک روایت میں آیا ہے کہ حکمران کی سماع واطاعت کرو اگرچہ وہ تمہارا مال چھین لے اور تمہاری کمر پر کوڑے مارے۔

جناب ابی سلام فرماتے ہیں کہ سیدنا حذیفہ بن یمانرضی اللہ عنہ  نے فرمایا کہ میں نے کہا:

’’يَا رَسُولَ اللَّهِ، إِنَّا كُنَّا بِشَرٍّ فَجَاءَ اللَّهُ بِخَيْرٍ فَنَحْنُ فِيهِ، فَهَلْ مِنْ وَرَاءِ هَذَا الْخَيْرِ شَرٌّ؟، قَالَ: نَعَمْ، قُلْتُ: هَلْ وَرَاءَ ذَلِكَ الشَّرِّ خَيْرٌ؟، قَالَ: نَعَمْ، قُلْتُ: فَهَلْ وَرَاءَ ذَلِكَ الْخَيْرِ شَرٌّ؟، قَالَ: نَعَمْ، قُلْتُ: كَيْفَ؟، قَالَ: يَكُونُ بَعْدِي أَئِمَّةٌ لَا يَهْتَدُونَ بِهُدَايَ، وَلَا يَسْتَنُّونَ بِسُنَّتِي، وَسَيَقُومُ فِيهِمْ رِجَالٌ قُلُوبُهُمْ قُلُوبُ الشَّيَاطِينِ فِي جُثْمَانِ إِنْسٍ، قَالَ: قُلْتُ: كَيْفَ أَصْنَعُ يَا رَسُولَ اللَّهِ، إِنْ أَدْرَكْتُ ذَلِكَ؟، قَالَ: تَسْمَعُ وَتُطِيعُ لِلْأَمِيرِ، وَإِنْ ضُرِبَ ظَهْرُكَ، وَأُخِذَ مَالُكَ فَاسْمَعْ وَأَطِعْ ‘‘([3])

( یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہم شر میں زندگی گزار رہے تھے کہ اللہ تعالی یہ خیر لے آیا اور ہم اب اسی میں جی رہے ہیں ، پس کیا اس خیر کے بعد بھی کوئی شر ہوگا؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ہاں ۔ میں نے کہا: کیا اس شر کے بعد خیر ہوگا؟ فرمایا: ہاں۔ میں پھر کہا کہ: کیا اس خیر کے بعد دوبارہ سے شر ہوگا؟ فرمایا: ہاں۔ میں نے کہا: کیسا ہوگا؟ فرمایا: میرے بعد ایسے آئمہ آئیں گے جو میری ہدایت پر نہیں چلتے ہوں گے اور نہ ہی میری سنت کی پیروی کریں گے، اور عنقریب ان میں ایسے انسان کھڑے ہوں گے جن کے جسم انسانوں کے ہوں گے لیکن دل شیاطین کے دل ہوں گے۔ میں نے کہا: اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اگر میں ایسے حالات پالوں تو کیا کروں؟ فرمایا: اپنے امیر (حکمران) کی بات سننا اور اطاعت کرنا اگرچہ تیری کمر پر کوڑے مارے جائیں اور تیرا مال چھین لیا جائے، تو سننا اور اطاعت کرنا)۔

مزید تفصیل کے لیے مکمل مقالا پڑھیں ۔ ۔ ۔



[1] اخرجہ البخاری فی کتاب المناقب، باب علامات النبوۃ فی الاسلام، حدیث رقم 3606۔

[2] یہاں آپ گمراہی کی طرف دعوت دینے والے داعیان کی صفت پر ذرا ٹھہر کر غور کریں، جبکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ایسے لوگوں کی کثرت کی حالت میں جماعت کو لازم پکڑنے کی دعوت دے رہے ہیں، پس یہی ان لوگوں کے فتنے سے بچنے کی سبیل نجات ہے۔ ناکہ حکمرانوں کی تکفیر کرنا یا ان پر خروج کرنا اورعوام کے دل ان کے خلاف بغض وعدوات سے بھرنا۔

[3] اخرجہ مسلم فی کتاب الامارۃ، باب وجوب ملازمۃ جماعۃ المسلمین عند ظھور الفتن، حدیث رقم 1847۔