Sunday, January 31, 2016

کوئی سچا مومن مساجد میں دھماکے نہیں کرسکتا – شیخ صالح بن فوزان الفوزان

کوئی سچا مومن مساجد میں دھماکے نہیں کرسکتا  
فضیلۃ الشیخ صالح بن فوزان الفوزان حفظہ اللہ
(سنیئر رکن کبار علماء کمیٹی، سعودی عرب)
ترجمہ: طارق علی بروہی
مصدر: تفجير المساجد لا يفعله من كان في قلبه مثقال ذرة إيمان۔
پیشکش: توحیدِ خالص ڈاٹ کام
نشر :عبدالمومن سلفی
-------------------------------------------
www.mominsalafi.blogspot.com
www.talashhaq.blogspot.com
-------------------------------------------

بسم اللہ الرحمن الرحیم
کبار علماء کمیٹی، سعودی عرب کے سنئیر رکن فضیلۃ الشیخ صالح بن فوزان الفوزان حفظہ اللہ نے اللہ تعالی کے اس فرمان کی وضاحت کرتے ہوئے:
﴿وَمَنْ أَظْلَمُ مِمَّن مَّنَعَ مَسَاجِدَ اللَّهِ أَن يُذْكَرَ فِيهَا اسْمُهُ وَسَعَىٰ فِي خَرَابِهَا ۚ أُولَٰئِكَ مَا كَانَ لَهُمْ أَن يَدْخُلُوهَا إِلَّا خَائِفِينَ ۚ لَهُمْ فِي الدُّنْيَا خِزْيٌ وَلَهُمْ فِي الْآخِرَةِ عَذَابٌ عَظِيمٌ﴾ (البقرۃ: 114)
(اور اس سے زیادہ ظالم کون ہے جو اللہ کی مسجدوں سے منع کرے کہ ان میں اس کا نام لیا جائے اور ان کی بربادی کی کوشش کرے، ان لوگوں کا حق نہیں کہ وہ ان میں داخل ہوں مگر ڈرتے ہوئے۔ ان کے لیے دنیا ہی میں ایک رسوائی ہے اور ان کے لیے آخرت میں بہت بڑا عذاب ہے)
اس بات پر زور دیا ہے کہ بے شک صوبۂ احساء مسجد رضا میں جو نماز جمعہ کے دوران نمازیوں پر زیادتی کا جرم کیا گیا ہے، ایسے لوگوں کی طرف سے ہے جو اللہ تعالی اور یوم آخرت پر ایمان نہيں رکھتے۔ اس آیت میں اللہ تعالی نے اس جرم اور ایسا کرنے والوں کو دھمکی دی ہے، اور وہ جس سلوک کے مستحق ہیں وہ بھی ذکر فرمایا۔  کیونکہ اللہ کی مساجد کے بارے میں یہ واجب ہے کہ ان کا احترام ہو اور انہيں محفوظ رکھا جائے، ناکہ اس  کی بے حرمتی کی جائے اور اس میں مسلمانوں کا خون بہایا جائے۔
اور فضیلۃ الشیخ نے فرمایا: بلاشبہ اللہ کے گھروں کی بے حرمتی کرنا اور ان مسلمانوں کو دہشت زدہ کرنا جو اللہ تعالی کی عبادت کے لیے آئے ہیں ایسے خطرناک جرائم میں سے ہے جو کسی سچے مسلمان سے صادر نہیں ہوسکتے کہ جس کے دل میں رائے کے دانے کے برابر بھی ایمان ہو۔ بلکہ یہ خود گمراہ اور دوسروں کو گمراہ کرنے والےگروہوں کی کارستانی ہوتی ہے۔ جن کے منحرف اور صحیح راہ سے ہٹے ہوئے افکار وآراء ہوا کرتی  ہیں۔ وہ مسلمانوں کی تکفیر کرتے ہيں اور اہل ایمان کا خون مباح سمجھتے ہيں۔ جیسا کہ سیدنا محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان کے متعلق خبردی:
’’يَخْرُجُ فِيكُمْ قَوْمٌ تَحْقِرُونَ صَلاَتَكُمْ مَعَ صَلاَتِهِمْ، وَصِيَامَكُمْ مَعَ صِيَامِهِمْ، وَأَعْمَالَكُمْ مَعَ أَعْمَالِهِمْ، يَقْرَؤُونَ الْقُرْآنَ وَلاَ يُجَاوِزُ حَنَاجِرَهُمْ، يَمْرُقُونَ مِنَ الدِّينِ كَمَا يَمْرُقُ السَّهْمُ مِنَ الرَّمِيَّةِ‘‘[1]
(تم میں ایسی قوم نکلے گی جن کے نمازوں کے سامنے تم اپنی نمازوں  کو ہیچ سمجھوگے، اسی طرح سے ان کے روزوں کے سامنے اپنے روزوں کو اور ان کے اعمال کے سامنے اپنے اعمال کو حقیر جانو گے، وہ قرآن مجید پڑھیں گے لیکن وہ ان کے حلق سے نیچے نہیں اترے گا، دین سے یوں نکل جائيں گے جیسے تیر شکار کو پار کرکے چلا جاتا ہے)۔
شیخ الفوزان حفظہ اللہ نے اس پر مزید اضافہ کرتے ہوئے فرمایا: جب سے یہ گروہ خلفاء راشدین کے عہد کے اواخر میں ظاہر ہوا ، اس وقت سے لے کر آج تک یہ شکست خوردہ ہی ہے الحمدللہ، جب بھی ان کا کوئی گروہ ابھرتا ہے تو کاٹ دیا جاتا ہے، جیساکہ سیدنا محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا۔ اللہ تعالی کے گھر وں کے تو محافظ موجود ہیں، فرشتے بھی ہيں جو اس کی حفاظت کرتے ہیں، اللہ کے لشکروں میں سے لشکر ہیں جو اس کی حفاظت کرتے ہيں۔ ساتھ میں شیخ نے وضاحت فرمائی کہ امن وامان کی حالت کو پامال کرنا اور حکمرانوں کی نافرمانی کرنا امت میں پرخطر جرائم میں سے ہے۔  اور اس گمراہ گروہ  کو اپنے افکار دشمنان اسلام سے حاصل ہوتے ہیں، جن کی چاہت اللہ تعالی کے نور کو بجھا دینے کی ہے،لیکن ہمیشہ یہ اللہ تعالی کی مدد سےاس میں ناکام ونامراد شکست کھاتے رہے ہیں۔ اور ہمارے ملک میں مسلمان الحمدللہ امن، عزت وحفاظت سے ہيں اور اللہ تعالی کا دین ہی منصور وفتح یاب ہے الحمدللہ۔
جبکہ جو برحق گروہ ہے اس کی تو یہ نشانی نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ذکر فرمائی کہ:
’’لَا تَزَالُ طَائِفَةٌ مِنْ أُمَّتِي عَلَى الْحَقِّ ظَاهِرِينَ لِعَدُوِّهِمْ قَاهِرِينَ لا يَضُرُّهُمْ مَنْ خَالَفَهُمْ‘‘[2]
(میری امت کا اگر گروہ ہمیشہ حق کے ساتھ غالب رہے گا، اپنے دشمنوں پر بھی غالب رہے گا، ان کی مخالفت کرنے والا انہيں کوئی نقصان نہیں پہنچا پائے گا)۔
لیکن یہ لوگ تو درحقیقت کفار کے منہج پر چل رہے ہیں کہ جو لوگوں کو نور وہدایت سے نکال کر شرک وکفر کے اندھیروں میں لے جاتے ہیں، اور عمومی طور پر پوری انسانیت سے نفرت اور خصوصی طور پر اہل اسلام سے نفرت کی طرف لے جاتے ہیں۔ خود ان کی یہ حالت ہوتی ہے کہ ہمیشہ قلق وگھٹن میں جیتے ہیں، جو کچھ ان سے صادر ہوتا ہے وہ نتیجہ ہوتا ہے خود ان کی اپنی گھٹن کا جس میں وہ جی رہے ہوتے ہیں، اور دوسری طرف الحمدللہ مسلمان امن، راحت وایمان میں جیتے ہیں۔
پھر سختی سے شیخ نے اس بات کو ذکر فرمایا کہ یہ گمراہ گروہ اسلام کا دعوی کرتا ہے اور خود مسلمانوں کا ہی دشمن ہے۔ واجب ہے کہ ایسوں کا مقابلہ کیا جائے کیونکہ یہ ان دشمنان اسلام کی انگلیوں کے خفیہ اشاروں پر چل رہے ہوتے ہيں کہ جو امت اسلامیہ کے بارے میں برائی وشر کا ارادہ رکھتے ہيں۔
پھر شیخ نے پولیس وقانون نافذ کرنے والوں کو مخاطب کرکے فرمایا کہ: اللہ تعالی آپ کو ثابت قدم رکھے اور مدد فرمائے۔ بلاشبہ آپ اسلامی مورچوں میں سے ایک مورچے پر ہیں، اور اللہ تعالی کی جانب سے اجر وثواب کے مستحق ہیں، کہ آپ اس کے دین وحرمتوں کا دفاع کرتے ہیں، اور مسلمانوں کے امن وراحت کی خاطر اپنے آپ کو خطرے میں ڈالتے ہیں۔ جو آپ میں سے زندہ رہے تو وہ عزیز ہے اور جو مارا جائے تو وہ ان شاء اللہ شہید ہے۔ ہم اللہ تعالی سے مسلمانوں کے لیے نصرت کی دعاء کرتے ہيں، اور وہ ہمارے ملک کو ہر بری چیز سے محفوظ رکھے، اور گمراہوں کے مکروفریب کو انہیں کی گردن میں ڈال  کر مسلمانوں کو ان کی اذیتوں سے چھٹکارا عطاء فرمائے([3]۔


[1] مختلف الفاظ کے ساتھ اسی معنی کی بہت سی روایات صحیح بخاری ومسلم میں موجود ہیں۔

[2] مختلف الفاظ کے ساتھ اسی معنی کی بہت سی روایات صحیح بخاری ومسلم میں موجود ہیں۔

[3] سعودی عرب کے مفتئ اعظم شیخ عبدالعزیز بن عبداللہ آل الشیخ حفظہ اللہ نے بھی اس کی بھرپور مذمت فرمائی ہے کہ یہ عمل زمین میں فساد برپا کرنے میں سے ہے، اور ان جرائم کی سیریز میں ہے جو امت کو تفرقے میں ڈالنے کے لیے رچائے گئے ہيں، ایسے لوگوں کا کوئی دین نہيں،  اور مملکت سعودی عرب اللہ تعالی کے فضل وکرم سے کتاب وسنت پر قائم ہے اس قسم کے جرائم جو یہ گمراہ لوگ کرتے ہیں اسے کبھی نقصان نہيں پہنچا سکتے۔ ساتھ ہی نوجوانوں کو اس قسم کے گمراہ گروہوں کی دعوت کو سننے سے خبردار فرمایا ہے۔  اور قانون نافذ کرنے والے ادارے بھی شکریہ کے مستحق ہیں جو قربانیاں وخدمات وہ پیش کررہے ہیں، اللہ تعالی مسلمانوں کی اس وحدت کو قائم رکھے اور خادم الحرمین الشریفین ملک سلمان بن عبدالعزیز آل سعود حفظہ اللہ کو اس چیز کی توفیق دے جسے وہ پسند کرتا ہے اور راضی ہوتا ہے۔ (بیان مفتي المملكة: ما حدث في مسجد الرضا بالأحساء مسلسل إجرامي يهدف لتفريق الأمة)
January 31, 2016 | الشيخ صالح بن فوزان الفوزان, مقالات

ديوبنديوں كے پيچھے نماز ادا كرنا

السلام علیکم.
ميرے علاقے ميں اكثريت حنفى اور ديوبندى حضرات كى ہے، اس علاقے ميں سلفى اہلحديث حضرات كى مساجد بہت ہى كم ہيں، اور عصر كى نماز كا وقت مجھے ڈيوٹى پر ہى ہو جاتا ہے جہاں قريب كوئى سلفى اہلحديث مسجد نہيں جس ميں عصر كى نماز باجماعت ادا كر سكوں، بلكہ وہاں حنفيوں كى مسجد ہے جو عصر كى نماز تاخير كے ساتھ مغرب سے تقريبا ايك گھنٹہ قبل ادا كرتے ہيں.
مجھے بتائيں كہ ميں كيا كروں آيا اس حالت ميں نماز مؤخر كر كے نماز باجماعت ادا كروں يا كہ اول وقت ميں اكيلے ہى ڈيوٹى والى جگہ ميں نماز ادا كر ليا كروں ؟
--------------------------------------------
www.mominsalafi.blogspot.com
www.talashhaq.blogspot.com
www.salafimomin.wordpress.com
www.salafimomin.blogspot.com
www.mominsalafi.simplesite.com
-----------------------------------------
وعليكم السلام.
ديوبندى حضرات نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم اور صلحاء كے توسل كے بھى قائل ہيں.
بدعتى شخص كے پيچھے نماز ادا كرنے كے بارہ ميں راجح حكم يہى ہے كہ جس كے مسلمان ہونے كا حكم ہو اس كے پيچھے نماز ادا كرنى جائز ہے، اور جس كى بدعت كفريہ ہو اور وہ اس بدعت كى بنا پر كافر ہو جائے تو اس كے پيچھے نماز نہيں ہوگى.
شيخ ابن باز رحمہ اللہ سے درج ذيل سوال دريافت كيا گيا:
كيا اہل سنت والجماعت كے عقيدے كے مخالف شخص مثلا اشعرى عقيدہ ركھنے والے كے پيچھے نماز ادا كرنا جائز ہے ؟
شيخ رحمہ اللہ كا جواب تھا:
قريب تر جواب تو يہى ہے كہ ( واللہ اعلم ) جس كے بارہ ميں ہم مسلمان ہونے كا حكم لگائيں تو اس كے پيچھے ہمارا نماز ادا كرنا صحيح ہے، اور جس كے مسلمان نہ ہونے كا حكم ہو اس كے پيچھے نماز نہيں ہوگى.
اہل علم كى ايك جماعت كا قول يہى ہے اور صحيح قول بھى يہى ہے.
ليكن جو كہتا ہے كہ نافرمان شخص كے پيچھے نماز ادا كرنا صحيح نہيں اس كا قول قابل قبول نہيں، اس كى دليل يہ ہے كہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے امراء كے پيچھے نماز ادا كرنے كى اجازت دى ہے، اور اكثر امراء نافرمان ہوتے ہيں، اور پھر ابن عمر اور انس رضى اللہ تعالى عنہم اور صحابہ كى ايك جماعت نے حجاج بن يوسف كے پيچھے نماز ادا كى حالانكہ وہ سب سے زيادہ ظالم شخص تھا.
حاصل يہ ہوا كہ ايسے بدعتى شخص كے پيچھے نماز ہو جاتى ہے جس كى بدعت اسے دائرہ اسلام سے خارج نہ كرتى ہو، يا ايسے فاسق و فاجر شخص كے پيچھے بھى نماز ہو جائيگى جو اسے دائرہ اسلام سے خارج نہ كرے.
ليكن انہيں سنت پر عمل كرنے والے شخص كو امام بنانا چاہيے، اور اسى طرح اگر كچھ لوگ كہيں جمع ہوں تو وہ نماز كے ليے اپنے ميں سب سے افضل شخص كو آگے كريں " انتہى
ديكھيں: فتاوى شيخ ابن باز ( 5 / 426 ).
اور شيخ ابن عثيمين رحمہ اللہ سے درج ذيل سوال دريافت كيا گيا:
كچھ اسلامى ممالك جہاں كى اكثر مساجد ميں اشعرى مذہب ركھنے والے امام ہوں ان مساجد ميں اشعرى عقيدہ ركھنے والے امام كے پيچھے نماز ادا كرنے كا حكم كيا ہے ؟
شيخ رحمہ اللہ كا جواب تھا:
" جائز ہے، اور امام كے عقيدہ كے متعلق سوال كرنا لازم نہيں "
ميں نے شيخ رحمہ اللہ سے دريافت كيا:
اگر يہ پتہ چل جائے كہ امام اشعرى عقيدہ ركھتا ہے تو ؟
شيخ رحمہ اللہ نے جواب ديا:
" اس كے پيچھے نماز جائز ہے، ميرے علم كے مطابق تو كسى ايك نے بھى اشاعرہ يعنى اشعرى عقيدہ ركھنے والوں كو كافر قرار نہيں ديا " انتہى
ماخوذ از: ثمرات التكوين تاليف: احمد عبد الرحمن القاضى.
اور مستقل فتاوى كميٹى كے فتاوى جات ميں درج ہے:
رہا مسئلہ بدعتى كے پيچھے نماز ادا كرنا تو اگر اس كى بدعت شركيہ ہو مثلا غير اللہ كو پكارنا اور غير اللہ كے ليے نذر و نياز دينا، اور ان كا اپنے پيروں اور مشائخ كے بارہ ميں اللہ كے كمال علم جيسا عقيدہ ركھنا، اور ان كے بارہ ميں يہ عقيدہ ركھنا كہ انہيں علم غيب ہے، يا كون ميں اثرانداز ہوتے ہيں اور اختيار ركھتے ہيں تو پھر ان كے پيچھے نماز صحيح نہيں ہو گى.
اور اگران كى بدعت شركيہ نہيں؛ مثلا نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم سے ثابت شدہ ذكر كو وہ اجتماعى طور پر كريں اور لہك كر كريں تو ان كے پيچھے نماز صحيح ہے.
ليكن يہ ہے كہ مسلمان شخص كو نماز كى ادائيگى كے ليے سنت پر عمل كرنےوالا امام تلاش كرنا چاہيے بدعتى نہيں؛ تا كہ اجروثواب زيادہ ہو، اور برائى سے دور رہے " انتہى
ديكھيں: فتاوى اللجنۃ الدائمۃ للبحوث العلميۃ والافتاء ( 7 / 353 ).
اس بنا پر اگر آپ كو علم ہو كہ وہ شركيہ امور نہيں كرتا تو اس كے پيچھے نماز صحيح ہے، چاہے وہ عصر كى نماز سوال ميں مذكورہ وقت تك كرتا ہو اہم يہ ہے كہ شركيہ امور نہ كرے اور وقت كے اندر نماز كرتا ہو تو نماز صحيح ہے، اور اس كى بنا پر نماز باجماعت سے پيچھے رہنا جائز نہيں ہوگا.
واللہ اعلم .

Saturday, January 30, 2016

یہ مختلف جماعتیں اسلام کے لیے نقصان دہ ہیں – شیخ صالح بن فوزان الفوزان

یہ مختلف جماعتیں اسلام کے لیے نقصان دہ ہیں  
فضیلۃ الشیخ صالح بن فوزان الفوزان حفظہ اللہ
(سنیئر رکن کبار علماء کمیٹی، سعودی عرب)
ترجمہ وترتیب: طارق علی بروہی
نشر واشاعت : عبدالمومن سلفي
اقرإدالقرآن والحديث كشمير الهند
------------------------------------
mominsalafi.blogspot.com
talashhaq.BlogSpot.com
-------------------------------------------

بسم اللہ الرحمن الرحیم
سوال: یا شیخ بعض جماعتیں ہیں جو اسلام کا نام لے کر بات کرتی ہیں حالانکہ اسلام ان سے بری ہے، اور جہاد فی سبیل اللہ کا پرچم بلند کرکے اسلام کے دفاع کا نعرہ لگاتے ہیں، لیکن پھر یہی وہ جماعتیں ہوتی ہيں جو اسلام کو بدترین نقصان پہنچا رہی ہوتی ہیں، اس طور پر کہ جو خون خرابہ کرنا، حرمتوں کو پامال کرنا  اور پرامن لوگوں کو دہشت زدہ کردینا، امت کی وحدت صف میں تفرقہ ڈالنا ان کے کام ہوتے ہيں، اس بارے میں آپ کیا فرماتے ہیں؟
الشیخ: الحمدللہ، جہاد تو اسلام کی کوہان (چوٹی) ہے۔ اور جہاد وہجرت اسلام کے افضل اعمال میں سے ہیں۔ لیکن جہاد مسلمانوں کے حکمران کی صلاحیت واختیار کار میں سے ہے۔ وہی اس کا حکم دیتا ہے، اسے نافذ  کرکے اس کی سربراہی یا تو خود کرتا ہے یا پھر جو اس بارے میں اس کا قائم مقام ہوتا ہے وہ کرتا ہے۔ اور یہ بات تو عقیدے کی کتب میں مذکور ہے۔ عقیدۂ اہل سنت والجماعت میں یہ بات موجود ہے کہ وہ کہتے ہیں: جہاد تاقیامت جاری رہے گا ہر امام وحکمران کے ساتھ خواہ وہ نیک ہو یا بد۔ یہ ہوتاہے صحیح شرعی جہاد۔ جبکہ یہ خون خرابہ کرنا اور حکمران وقت کی نافرمانی کرنا یہ تو خوارج کا مذہب ہے۔ اور یہ زمین میں فساد پھیلانا ہے۔ یہ فساد ہے نہ کہ جہاد۔ اللہ تعالی سے عافیت کا سوال ہے اور مسلمانوں میں سے جو گمراہ ہوگئے ہیں انہیں حق بات کی معرفت اور اس پر عمل کی ہدایت کی دعاء ہے۔
سوال: شیخ بعض نوجوان ان چکاچونک نعروں سے دھوکہ کھا جاتے ہیں جو یہ فسادی جماعتیں لگاتی پھرتی ہیں، اور ان میں شمولیت اختیار کرنے کی جلدی کرتے ہیں پس اپنے حکمرانوں پر خروج اختیار کرتے ہیں اور نفرت وعداوت کے ساتھ ان پر چڑھ دوڑتے ہیں، آپ اس بارے میں کیا رہنمائی فرماتے ہیں؟
الشیخ: یہ لوگ جن کی ایسی صفات ہوں ان سے تو نبی رحمت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے خبردار فرمایا اور ڈرایا ہے، اسی طرح سے آئمہ اسلام نے بھی ان سے خبردار فرمایا ہے۔ ان کے بارے میں واجب یہ ہے کہ ان میں سے اسے نصیحت کی جائے جو نصیحت قبول کرتا ہو اور جو نصیحت قبول کرنے کو تیار نہ ہو تو پھر حکمران مسلمانوں پر سے اس کی اور اس جیسے دوسروں کی شرپسندی کو روکے گا، ایسی چیز کو نافذ کرکے جو انہیں اس سے باز رکھنے والی ہو۔ لازم ہے کہ دین اور مسلمانوں کے ملکوں کی حفاظت ودفاع کرنے والے موجود ہوں۔اور (صرف قانون نافذ کرنے والے ادارے ہی نہیں بلکہ ) سب کے سب مسلمان ہی امن کے محافظ ہیں اور اس دین ،  مسلمانوں کے ملکوں اور ان کی حرمتوں کی حفاظت کے سب مسئول ہیں ۔ اس قسم کے لوگوں پر خاموشی اختیار کرنا جائز نہيں یا ان میں سے بعض تو ایسوں کی تعریف ومدح کرتے ہیں۔ یہ تو نری جہالت ہے یا خود ان کا شریک کار بننا ہے۔ جو ایسوں کی تعریف کرے اور ان کی حرکتوں کا جواز پیش کرنے کی کوشش کرے تو اس کا حکم بھی وہی ہے جو خود ان لوگوں کا حکم ہے۔
January 30, 2016 | الشيخ صالح بن فوزان الفوزان, مقالات, گمراہ فرقے |

 

انساتی دماغ ،، عبدالمومن سلفی

انساني دماغ
talishhat.BlogSpot.com
سائنسدانوں کے مطابق انساني دماغ ايک ارب سے زيادہ نيوران پر مشتمل ہے - انساني دماغ کو مکمل طور پر سمجھنے کے ليے ايک ارب پونڈ کي لاگت سے يورپي يونين کے پراجيکٹ کا آغاز ہوگيا ہے- انساني دماغ کي پيچيدگيوں کو سمجھنے کے ليے شروع والے اس پراجيکٹ کا انساني جينوم کو سمجھنے سے متعلق شروع ہونے والے منصوبے سے موازانہ کيا جا رہا ہے-
ہيومن برين پراجيکٹ (ايچ بي پي) نامي منصوبے ميں يورپي ممالک کے 135 سائنسي اداروں ميں کام کرنے والے سائنسدان حصہ لے رہے ہيں-
يورپي يونين کا يہ منصوبہ ايک عشرے تک جاري رہے گا جس کے دوران سائنسدان ايسي کمپيوٹر سموليشن تيار کرنے کي کوشش کريں گے جس سے انساني دماغ کو مکمل طور پر سمجھنے ميں مدد مل سکے گي-
سائنسدانوں کے مطابق انساني دماغ ايک ارب سے زيادہ نيوران اور سو کھرب سے زيادہ لونيا جوڑوں پر مشتمل ہے- سوئٹزرلينڈ سےتعلق رکھنے والے پروفيسر ہنري مارکريم کے مطابق اس منصوبے کا مقصد انساني دماغ کے بارے ميں تمام معلومات کو اکھٹا کر کے ايسي کمپيوٹر ٹيکنالوجي کا قيام ہے جس کے تحت دماغ کے بارے سموليشن بن سکيں-
انہوں نے کہا’ہميں يہ سمجھنے کي ضرورت ہے کہ انساني دفاع اتنا منفرد کيوں ہے اور انساني رويے اور ذہانت کے پيچھے کون سےعوامل کار فرما ہوتے ہيں-‘
انہوں نے کہا اس پراجيکٹ کے مقاصد ميں يہ بھي سمجھنا ہے کہ دماغي بيماريوں کا کيسا پتا چلا جائے اور انساني ذہن کو سمجھ کر نيا ڈيجيٹل دماغ تيار کيا جا سکے-
سائنسدانوں کا خيال ہے کہ اس وقت کمپيوٹر ٹيکنالوجي انساني ذہن کے پيچيدہ گوشوں کي مکمل سموليشن تيار کرنے کے قابل نہيں ہے-
انساني ذہن کو سمجھنے کے اس منصوبے کا انساني جينوم پراجيکٹ کے ساتھ موازانہ کيا جا رہا ہے- ايک عشرے تک جاري رہنے والے انساني جينوم پراجيکٹ ميں ہزاروں سائنسدانوں نے حصہ ليا تھا اور اس منصوبے ميں انساني جينيٹک کوڈ کو سمجھنے کي کوشش کي گئي تھي - اس منصوبے پر اربوں ڈالر کے اخراجات آئے تھے- سائنسدانوں کا خيال ہے کہ اس منصوبے کے بعد سائنسدان انساني دماغ اور ڈيجيٹل دماغ کا موازانہ کر کے انساني دماغ کي بيماريوں کا پتہ چلايا جا سکے گا -


Friday, January 29, 2016

اہل سنت كے ہاں چھوٹى بچى كى شادى اور اس كى رخصتى كے متعلقہ كلام

الحمد للہ:

اس مسئلہ ميں اہل سنت كے ہاں دو چيزيں ہيں جنہيں رافضى شيعى اور دشمنان اسلام نے خلط ملط كر ديا ہے، اور اسے ايك بنا كر ركھ ديا ہے، اور وہ دو چيزيں يہ ہے:
چھوٹى بچى كى شادى.
اور چھوٹى بچى كى رخصتى اور اس كے ساتھ دخول كرنا.
پہلا مسئلہ: mominsalafi.BlogSpot,com
چھوٹى بچى كى شادى:
عام علماء كرام اس كو جائز قرار ديتے ہيں، كہ شريعت ميں شادى كے ليے بچى كى عمر كى تعيين نہيں كہ اس عمر سے قبل بچى كى شادى نہ كى جائے.
اس كا ثبوت اللہ كى كتاب اور نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كى سنت اور اہل علم كے اجماع ميں ہے.
1 ـ اللہ سبحانہ و تعالى كا فرمان ہے:
{ اور تمہارى عورتوں ميں سے وہ جو حيض سے نااميد ہو گئى ہوں، اگر تمہيں شبہ ہو تو ان كى عدت تين مہينے ہے، اور ان كى بھى جنہيں حيض آنا شروع ہى نہ ہوا ہو }الطلاق ( 4 ).
يہ آيت كريمہ اس مسئلہ پر واضح دلالت كرتى ہے جس ميں ہم بحث كر رہے ہيں، اور اس آيت ميں اس طلاق شدہ عورت كى عدت بيان ہوئى ہے جو ابھى بچى ہو اور اسے حيض آنا ہى شروع نہيں ہوا.
امام بغوى رحمہ اللہ كہتے ہيں:
{ اور وہ عورتيں جنہيں ابھى حيض نہيں آيا }.
يعنى وہ چھوٹى عمر كى جنہيں ابھى حيض آيا ہى نہيں، تو ان كى عدت بھى تين ماہ ہے.
ديكھيں: تفسير البغوى ( 8 / 052 ).
اور ابن قيم رحمہ اللہ كہتے ہيں:
" اس عورت كى عدت جسے حيض نہيں آتا اس عورت كى دو قسميں ہيں:
ايك تو وہ چھوٹى عمر كى جسے ابھى حيض آيا ہى نہيں، اور دوسرى وہ بڑى عمر كى عورت جو حيض سے نااميد ہو چكى ہے.
چنانچہ اللہ سبحانہ و تعالى نے ان دونوں قسم كى عورتوں كى عدت بيان كرتے ہوئے فرمايا:
{ اور تمہارى عورتوں ميں سے وہ جو حيض سے نااميد ہو گئى ہوں، اگر تمہيں شبہ ہو تو ان كى عدت تين مہينے ہے، اور ان كى بھى جنہيں حيض آنا شروع ہى نہ ہوا ہو }الطلاق ( 4 ).
يعنى ان كى عدت بھى اسى طرح ہے " انتہى
ديكھيں: زاد المعاد فى ھدي خير العباد ( 5 / 595 ).
2 ـ سنت كے دلائل:
عائشہ رضى اللہ تعالى عنہا بيان كرتى ہيں كہ:
" نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے ان سے شادى كى تو ان كى عمر ابھى چھ برس تھى، اور جب رخصتى ہوئى تو وہ نو برس كى تھيں، اور نو برس ہى وہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كے ساتھ رہيں "
صحيح بخارى حديث نمبر ( 4840 ) صحيح مسلم حديث نمبر ( 1422 ).
علماء كے صحيح قول كے مطابق اس چھوٹى عمر كى لڑكى كى شادى اس كا باپ كريگا باپ كے علاوہ كوئى اور ولى نہيں كر سكتا اور بالغ ہونے كے بعد يہ لڑكى اختيار كى مالك نہيں.
شيخ الاسلام ابن تيميہ رحمہ اللہ كہتے ہيں:
" عورت كى اجازت كے بغير كوئى بھى عورت كى شادى نہيں كر سكتا، جيسا كہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے حكم ديا ہے، اور اگر وہ اسے ناپسند كرے تو اسے نكاح پر مجبور نہيں كر سكتا، ليكن چھوٹى عمر كى كنوارى بچى كو، اس كى شادى اس كا والد كريگا، اور اس كو اجازت كا حق نہيں " انتہى
ديكھيں: مجموع الفتاوى ( 32 / 39 ).
3 ـ اجماع:
ابن عبد البر رحمہ اللہ كہتے ہيں:
" علماء كرام كا اس پر اجماع ہے كہ باپ اپنى چھوٹى عمر كى بچى كى شادى كر سكتا ہے اور اس ميں اسے بچى سے مشورہ كرنے كى ضرورت نہيں، كيونكہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے عائشہ بنت ابو بكر رضى اللہ تعالى عنہما سے شادى كى تو ان كى عمر ابھى چھ يا سات برس تھى، ان كا نكاح ان كے والد نے نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم سے كيا تھا" انتہى
ديكھيں: الاستذكار ( 16 / 49 - 50 ).
اور ابن حجر رحمہ اللہ كہتے ہيں:
" چھوٹى بچى كا والد اس كى شادى كريگا اس پر اتفاق ہے بخلاف شاذ قول كے " انتہى
ديكھيں: فتح البارى ( 9 / 239 ).
دوسرا مسئلہ:
چھوٹى بچى كى رخصتى اور اس سے دخول كرنا:
عقد نكاح كرنے سے يہ چيز لازم نہيں آتى، كيونكہ يہ تو سب كو معلوم ہے كہ بعض اوقات بڑى عمر كى عورت كا نكاح ہوتا ہے ليكن اس سے اس كا دخول لازم نہيں آتا، اور اس كا پورى وضاحت سے بيان اس طرح ہو سكتا ہے كہ:
بعض اوقات عقد نكاح كے بعد اور دخول يعنى رخصتى سے قبل ہى طلاق ہو جاتى ہے، تو اس صورت ميں اس كے كچھ احكام بھى ہيں ـ اور يہ اپنے عموم كے اعتبار سے چھوٹى عمر كى بچى كو بھى شامل ہے ـ اگر مہر مقرر كيا گيا ہے تو اسے نصف مہر ادا كرنا ہو گا، اور اس كى كوئى عدت نہيں ہو گى.
نصف مہر كے متعلق اللہ سبحانہ و تعالى كا فرمان ہے:
} اور اگر تم انہيں چھونے سے پہلے ہى طلاق دے دو اور تم نے ان كا مہر بھى مقرر كر ديا ہو تو مقرر كردہ مہر كا آدھا مہر دے دو، يہ اور بات ہے كہ وہ خود معاف كر ديں، يا وہ شخص جس كے ہاتھ ميں نكاح كى گرہ ہے وہ معاف كر دے {البقرۃ ( 237 ).
اور دوسرى عورت يعنى جس پرعدت نہيں كے متعلق ارشاد بارى تعالى ہے:
} اے ايمان والو جب تم مومن عورتوں سے نكاح كرو پھر ہاتھ لگانے سے پہلے طلاق دے دو تو ان پر تمہارا كوئى حق عدت كا نہيں جسے تم شمار كرو، چنانچہ تم كچھ نہ كچھ انہيں دے دو اور بھلے طريقہ سے انہيں رخصت كر دو {الاحزاب ( 49 ).
اس بنا پر جس چھوٹى بچى كا نكاح ہو جائے تو اسے خاوند كے سپرد اس وقت نہيں كيا جائيگا جب تك وہ رخصتى اور مباشرت كے قابل نہيں ہو جاتى، اور اس ميں اس كے بالغ ہونے كى شرط نہيں؛ بلكہ مباشرت كو برداشت كرنے كى طاقت ہونى چاہيے، اور اگر رخصتى ہو نے كے بعد طلاق ہو تو اس كى عدت تين ماہ ہو گى جيسا كہ اوپر بيان ہوا ہے.
اس سلسلہ ميں علماء كے يہ اقوال ہيں جو كہ چھوٹى بچى سے استمتاع يا اس سے دخول كا گمان كرنے والے كا رد ہيں.
امام نووى رحمہ اللہ كہتے ہيں:
" چھوٹى عمر كى لڑكى كى رخصتى اور اس سے دخول كا وقت يہ ہے كہ:
اگر خاوند اور ولى كسى ايسى چيز پر متفق ہوئے ہوں جس ميں چھوٹى بچى كو نقصان اور ضرر نہيں تو اس پر عمل كيا جائيگا، اور اگر ان ميں اختلاف ہو تو امام احمد اور ابو عبيد كہتے ہيں كہ:
نو برس كى بچى كو اس پر مجبور كيا جائيگا، ليكن اس سے چھوٹى بچى كو نہيں.
اور امام شافعى اور مالك اور ابو حنيفہ رحمہم اللہ كہتے ہيں:
اس كى حد جماع برداشت كرنے كى استطاعت ہے، اور يہ چيز عورتوں ميں مختلف ہوتى ہے اس ميں عمر كى قيد نہيں لگائى جا سكتى، اور صحيح بھى يہى ہے، اور پھر عائشہ رضى اللہ تعالى عنہا كى حديث ميں عمر كى تحديد نہيں، اور نہ ہى اس ميں منع كيا گيا ہے كہ اگر وہ اس عمر سے قبل استطاعت ركھتى ہو اس كى رخصتى نہيں كى جائيگى.
اور نہ ہى اس كے ليے اجازت پائى جاتى ہى جو نو برس كى ہونے كے باوجود جماع كى استطاعت نہ ركھتى ہو،.
داودى رحمہ اللہ كہتے ہيں:
عائشہ رضى اللہ تعالى عنہا بہت بہتر جوان ہوئى تھيں " انتہى.
ديكھيں: شرح مسلم ( 9 / 206 ).
شيعہ كے ہاں متع كى اباحت كا رد ديكھنے كے ليے آپ سوال نمبر ( 20738 ) كے جواب كا مطالعہ كريں.
ہم يہ خيال نہيں كرتے كہ يہ مجادلہ اور بحث باطل ہے، جس پر استمتاع كا شبہ وارد ہوتا ہے وہ يہ ہے كہ بغير شادى كے استمتاع كرنا، يہ ہمارا كام نہيں، اور نہ ہى ہمارے دين ميں ہے، نہ تو ايسا بڑى عمر كى اور نہ ہى چھوٹى عمر كى عورت كے ساتھ كيا جا سكتا ہے.
اس كے متعلق تو يورپ والے انہيں سے دريافت كريں جو ايسا كرتے ہيں، اور چھوٹى عمر كى بچيوں كا استحصال كرتے ہيں چاہے وہ بچہ ہو يا بچى، اور غريب و پسماندہ ممالك ميں ان كے ساتھ زيادتى كى جاتى ہے، اور آپ ان كے فوجيوں كے متعلق دريافت كريں جو فقراء كو افريقيا ميں بچاتے پھرتے ہيں وہ ان كے ساتھ كيا كرتے ہيں ؟!!
واللہ اعلم

Wednesday, January 27, 2016

امام سرى نماز ميں قرآت لمبى كرے تو مقتدى كيا كرے ؟

الحمد للہ :
اول:
سرى نماز ميں نمازى كے ليے پہلى اور دوسرى ركعت ميں سورۃ فاتحہ اور قرآن مجيد سے جو ميسر ہو پڑھنا مشروع ہے، چاہے وہ امام ہو يا مقتدى اس كى دليل ابن ماجہ كى درج ذيل حديث ہے:
جابر بن عبد اللہ رضى اللہ تعالى عنہما بيان كرتے ہيں:
" ہم ظہر اور عصر كى نماز ميں امام كے پيچھے پہلى اور دوسرى ركعت ميں سورۃ الفاتحہ اور دوسرى كوئى سورۃ، اور آخرى دو ركعت ميں سورۃ فاتحہ پڑھا كرتے تھے "
سنن ابن ماجہ حديث نمبر ( 843 ) علامہ البانى رحمہ اللہ تعالى نے صحيح ابن ماجہ ميں اسے صحيح قرار ديا ہے.
نمازى ـ امام يا مقتدى ـ پہلى دونوں ركعتوں ميں سورۃ فاتحہ سے اكثر قرآت كرے گا؛ اس كى دليل بخارى اور مسلم كى درج ذيل حديث ہے:
ابن مسعود رضى اللہ تعالى عنہ بيان كرتے ہيں:
" ميں ان ايك جيسى سورتوں كى جانتا ہوں جو رسول كريم صلى اللہ وسلم ملا كر ايك ہى ركعت ميں پڑھا كرتے تھے، چنانچہ انہوں نے مفصل سورتوں ميں سے بيس سورتوں كا ذكر كيا "
صحيح بخارى حديث نمبر ( 775 ) صحيح مسلم حديث نمبر ( 822 ).
ان سورتوں ميں سے يہ ہيں كہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے سورۃ الرحمن، اور سورۃ النجم ايك ركعت ميں جمع كيں، اور سورۃ القمر، الحاقۃ اور سورۃ الطور، الذاريات، اور سورۃ الواقعۃ، القلم جمع كر كے پڑھيں.
ديكھيں: صفۃ صلاۃ النبى صلى اللہ عليہ وسلم للالبانى ( 104 ).
سورۃ فاتحہ كے بعد كوئى اور سورۃ پڑھنے پر بخارى كى درج ذيل حديث بھى دلالت كرتى ہے جو " باب الجمع بين السورتين فى الركعۃ " ايك ركعت ميں دو سورتوں كو جمع كرنے كے باب ميں انس بن مالك رضى اللہ تعالى عنہ سے مروى ہے:
انس بن مالك رضى اللہ تعالى عنہ بيان كرتے ہيں كہ ايك انصارى آدمى مسجد قباء ميں ان كى امامت كروايا كرتا تھا، اور جب بھى وہ نماز ميں قرآت كرتا تو " قل ہو اللہ احد " مكمل سورۃ پڑھنے كے بعد اس كے ساتھ كوئى اور سورۃ پڑھتا، يہ ہر ركعت ميں كيا كرتا تھا، چنانچہ اس كے ساتھيوں نے اس سے بات كى اور اسے كہنے لگے:
تم اس سورۃ سے قرآت كى ابتدا كرتے ہو اور پھر اس كو كافى نہيں سمجھتے بلكہ اس كے ساتھ كوئى اور سورۃ بھى پڑھتے ہو، يا تو يہى سورۃ پڑھا كرو، يا پھر اسے چھوڑ كر كوئى اور سورۃ پڑھ ليا كرو.
تو اس صحابى نے جواب ديا: ميں تو اسے نہيں چھوڑ سكتا، اگر تم پسند كرتے ہو تو ميں تمہارى امامت كرواتا ہوں، اگر ناپسند كرتے ہو تو چھوڑ ديتا ہوں، وہ لوگ اسے اپنے سے افضل سمجھتے تھے، اور انہوں نے اس كے علاوہ كسى اور كى امامت كروانے كو پسند نہ كيا.
چنانچہ جب نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم ان كے پاس تشريف لائے تو انہوں نے آپ كو يہ قصہ بتايا تو رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:
" يا فلاں: آپ كو جو كچھ تيرے دوست كہتے ہيں اس چيز كے كرنے ميں كونسى چيز مانع ہے ؟ اور وہ كيا چيز ہے جو تجھے ہر ركعت ميں يہ سورۃ پڑھنے پر ابھارتى ہے ؟
تو اس صحابى نے جواب ميں عرض كيا:
بلا شبہ ميں اس سورۃ سے محبت كرتا
 ہوں، تو رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:
اس سے تيرى محبت نے تجھے جنت ميں داخل كر دے گى "
فتاوى اللجنۃ الدائمۃ للبحوث العلميۃ والافتاء ( 6 / 403 ) بھى ديكھيں.
دوم:
اور آخرى دو ركعتوں ميں اصل تو يہى ہے كہ ان ميں صرف سورۃ فاتحہ كى قرآت پر ہى اقتصار كيا جائے، كيونكہ مسلم كى روايت ہے كہ:
ابو قتادہ رضى اللہ تعالى بيان كرتے ہيں كہ:
" نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم ظہر اور عصر كى پہلى دو ركعتوں ميں سورۃ الفاتحہ اور ايك سورۃ كى قرآت كيا كرتے تھے، اور بعض اوقات ہميں سنا بھى ديا كرتے تھے، اور آخرى دو ركعت ميں سورۃ فاتحہ كى تلاوت كرتے "
صحيح مسلم حديث نمبر ( 451 ).
اصل يہى ہے، اور نماز كے ليے آخرى دو ركعتوں ميں سورۃ فاتحہ كے بعد بعض اوقات كوئى اور سورۃ بھى پڑھنى جائز ہے، اس كى دليل مسلم شريف كى درج ذيل حديث ہے:
ابو سعيد خدرى رضى اللہ تعالى عنہ بيان كرتے ہيں كہ:
" ظہر كى پہلى دو ركعتوں ميں نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم ہر ركعت ميں تقريبا تيس آيتوں كے برابر قرآت كيا كرتے تھے، اور آخرى دو ركعتوں ميں تقريبا پندرہ آيات كے برابر، يا كہا: اس سے نصف، اور عصر كى پہلى دو ركعتوں ميں ہر ركعت ميں پندرہ آيات كے برابر، اور آخرى دو ركعتوں ميں اس سے نصف قرآت كرتے تھے "
صحيح مسلم حديث نمبر ( 452 ).
شيخ البانى رحمہ اللہ تعالى كہتے ہيں:
" اس حديث ميں دليل ہے كہ آخرى دو ركعتوں ميں سورۃ فاتحہ كے بعد كوئى اور سورۃ پڑھنا سنت ہے، اور صحابہ كرام كى ايك جماعت اسى پر ہے ان ميں ابو بكر صديق رضى اللہ تعالى عنہ شامل ہيں، اور امام شافعى رحمہ اللہ كا قول بھى يہى ہے، چاہے نماز ظہر ہو يا كوئى اور، ہمارے متاخرين علماء كرام نے بھى اسے ہى ليا ہے، مثلا ابو الحسنات لكھنوى " انتہى
ماخوذ از: صفۃ الصلاۃ ( 113 ).
شيخ ابن عثيمين رحمہ اللہ تعالى سے دريافت كيا گيا:
جب نمازى سرى نماز ميں سورۃ فاتحہ اور دوسرى سورۃ كى قرآت سے فارغ ہو اور امام ابھى ركوع ميں جائے تو كيا مقتدى خاموش رہے ؟
شيخ رحمہ اللہ تعالى كا جواب تھا:
" مقتدى جب سورۃ فاتحہ اور دوسرى سورۃ كى قرآت سے فارغ ہو جائے تو امام كے ركوع سے قبل خاموش نہ ہو، بلكہ امام كے ركوع جانے تك قرآت كرتا رہے، حتى كہ اگرچہ پہلى تشھد كے بعد والى دو ركعت ہى كيوں نہ ہوں اور وہ سورۃ فاتحہ كى قرآت سے فارغ ہو جائے اور امام ركوع ميں نہ گيا ہو تو وہ دوسرى سورۃ كى قرآت كرے حتى كہ امام ركوع ميں چلا جائے؛ كيونكہ امام كى قرآت كى سماعت كے وقت كے علاوہ نماز ميں خاموشى نہيں ہے " انتہى
ديكھيں: مجموع فتاوى ابن عثيمين ( 15 / 108 ).
واللہ اعلم

سجدہ سہو كے اسباب

الحمد للہ:
اللہ تعالى كى اپنے بندوں پر رحمت اور اس دين كامل كے محاسن ميں سے ہے كہ اس نے ان كى عبادات ميں جو خلل اور نقصان پيدا ہوتا ہے جس سے مكمل طور پر بچنا ممكن نہيں اسے يا تو نوافل كے ذريعہ يا پھر استغفار وغيرہ كے ساتھ پورا كرنا مشروع كيا ہے.
ان كى نمازوں ميں پيدا ہونے والے نقصان اور اس كى كمى و كوتاہى پورى كرنے كے ليے اللہ تعالى نے سجدہ سہو مشروع كيا ہے؛ ليكن يہ كچھ خاص امور كو پورا كرنے كے ليے مشروع ہے، ہر چيز كو سجدہ سہو پورا نہيں كرتا، يا ہر چيز كے ليے سجدہ سہو مشروع نہيں.
فضيلۃ الشيخ ابن عثيمين رحمہ اللہ تعالى سے سجدہ سہو كے اسباب كے متعلق دريافت كيا گيا تو ان كا جواب تھا:
نماز ميں سجدہ سہو كے اجمالى طور پر تين اسباب ہيں:
1 - زيادہ.
2 - نقصان.
3 - شك.
زيادہ: مثلا انسان ركوع يا سجدہ يا پھر قيام يا بيٹھ زيادہ جائے.
نقصان: مثلا انسان كسى ركن ميں كمى كردے يا پھر نماز كے واجبات ميں سے كوئى واجب ناقص رہے.
شك: نمازى كو ادا كردہ نماز ميں تردد ہو كيا كتنى ادا ہوئى ہے، تين يا چار ركعت.
اگر كوئى شخص نماز ميں جان بوجھ كر عمدا ركوع يا سجدہ يا قيام زيادہ كرے يا زيادہ بار بيٹھ جائے تواس كى نماز باطل ہو جائيگى؛ كيونكہ اس نے زيادتى كى ہے، اور اللہ تعالى اور اس كے رسول صلى اللہ عليہ وسلم كے بتائے ہوئے طريقہ كے علاوہ كسى اور طرح نماز ادا كى ہے؛ اور پھر رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان بھى ہے كہ:
" جس نے كوئى ايسا عمل كيا جس پر ہمارا حكم نہيں تو وہ عمل مردود ہے "
صحيح مسلم حديث نمبر ( 1718 ).
ليكن اگر وہ بھول كر نماز ميں زيادتى كر لے تو اس كى نماز باطل نہيں ہو گى، ليكن سلام كے بعد سجدہ سہو كرنا ہو گا، اس كى دليل درج ذيل حديث ہے:
ابو ہريرہ رضى اللہ تعالى عنہ بيان كرتے ہيں كہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے ظہر يا عصر كى نماز ميں ايك دن دو ركعت كے بعد سلام پھير ديا اور جب نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا اس كا بتايا گيا تو آپ صلى اللہ عليہ وسلم نے باقى مانندہ نماز پڑھائى اور سلام پھير كر دو سجدے كيے "
صحيح بخارى حديث نمبر ( 482 ) صحيح مسلم حديث نمبر ( 573 ).
اور ابن مسعود رضى اللہ تعالى عنہما بيان كرتے ہيں كہ ايك روز رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے انہيں ظہر كى نماز ميں پانچ ركعت پڑھا ديں، جب نماز سے فارغ ہوئے تو آپ سے عرض كيا گيا:
كيا نماز زيادہ كر دى گئى ہے ؟
تو رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے دريافت كيا: كيا ہوا ہے ؟
صحابہ نے عرض كيا: آپ نے پانچ ركعت پڑھائى ہيں !!
چنانچہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے اپنے پاؤں اكٹھے كر كے قبلہ رخ ہو كر دو سجدے كيے "
صحيح بخارى حديث نمبر ( 404 ) صحيح مسلم حديث نمبر ( 572 ).
اور نماز ميں كمى اور نقصان كے متعلق يہ ہے كہ اگر انسان نماز كے ركن ميں كمى كر دے تو يہ درج ذيل حالتوں سے خالى نہيں:
يا تو دوسرى ركعت ميں اسى جگہ پہنچنے سے قبل اسے ياد آ جائے؛ تو اس وقت اسے واپس پلٹ كر وہ ركن اور اس كے بعد كو مكمل كرنا لازم ہو گا.
يا پھر دوسرى ركعت ميں اسى جگہ پہنچ كر اسے ياد آئے، تو اس صورت ميں اس كى دوسرى ركعت اس ركن كے بدلے ميں ہو گى جو اس نے ترك كيا تھا، چنانچہ وہ اس كے بدلے ايك ركعت اور ادا كرے گا، ان دونوں حالتوں ميں سلام كے بعد سجدہ سہو كيا جائيگا.
اس كى مثال درج ذيل ہے:
ايك شخص پہلى ركعت ميں ايك سجدہ كرنے كے بعد اٹھ كھڑا ہوا نہ تو بيٹھا اور نہ ہى دوسرا سجدہ كيا، اور جب قرآت كرنا شروع كى تو اسے ياد آيا كہ نہ تو وہ دونوں سجدوں كے مابين بيٹھا ہے، اور نہ ہى اس نے دوسرا سجدہ كيا ہے، تو اس وقت وہ واپس پلٹ كر دونوں سجدوں كے مابين بيٹھے اور پھر سجدہ كر كے اپنى باقى مانندہ نماز مكمل كرے، اور سلام كے بعد سجدہ سہو كرے گا.
اور دوسرى ركعت ميں اسى جگہ پہنچ كر ياد آنے والے كى مثال يہ ہے كہ:
پہلى ركعت ميں وہ ايك سجدہ كے بعد اٹھ كھڑا ہوا اور دوسرا سجدہ نہ كيا اور نہ ہى دونوں سجدوں كے مابين بيٹھا، ليكن اسے يا اس وقت آيا جب وہ دوسرى ركعت ميں دونوں سجدوں كے درميان بيٹھا، تو اس حالت ميں اس كى دوسرى ركعت پہلى ركعت شمار ہو گى، اور وہ اپنى نماز ميں ايك ركعت زيادہ ادا كر كے سلام پھيرنے كے بعد سجدہ سہو كرے گا.
اور كسى واجب ميں نقص ہونے كى صورت يہ ہے كہ:
چنانچہ اگر كسى واجب ميں نقص رہ جائے اور اس كى جگہ سے اسے اگلى جگہ منتقل كر دے، اس كى مثال درج ذيل ہے:
مثلا وہ سجدہ ميں سبحان ربى الاعلى بھول جائے، اور سجدہ سے سر اٹھانے كے بعد ياد آئے تو اس نے بھول كر نماز كے واجبات ميں سے ايك واجب ترك كر ديا؛ چنانچہ وہ اپنى نماز جارى ركھے گا اور سلام پھيرنے سے قبل سجدہ سہو كرے گا، كيونكہ جب نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے پہلى تشھد ترك كى تو اپنى نماز جارى ركھى تھى اور واپس نہيں بيٹھے، اور انہوں نے سلام پھيرنے سے قبل سجدہ سہو كيا تھا.
اور شك زيادتى اور نقصان ميں تردد كو كہتے ہيں: اس كى مثال يہ ہے:
آيا اس نے تين ركعت ادا كى يا چار، اس صورت كى دو حالتيں ہيں:
يا تو اسے زيادہ يا نقصان ميں سے كسى ايك راجح ہو گى، تو جو طرف اسے راجح معلوم ہو اس پر نماز كى بنا كر كے نماز مكمل كرے، اور سلام پھيرنے كے بعد سجدہ سہو كرے.
يا پھر اس كے نزديك نقصان اور زيادتى ميں سے كوئى بھى راجح نہيں؛ تو اسے يقين پر عمل كرنا چاہيے جو كہ كم ركعات ہيں، اس پر وہ اپنى نماز مكمل كرتے ہوئے سلام سے قبل سجدہ سہو كرے گا.
اس كى مثال يہ ہے كہ: ايك شخص نے ظہر كى نماز ادا كى اور تيسرى ركعت ميں اسے شك ہوا كہ آيا وہ تيسرى ركعت ميں ہے يا چوتھى ميں ؟ اور اس كے نزديك تيسرى ركعت راجح ٹھرى تو وہ ايك ركعت ادا كر كے سلام پھير كر سجدہ سہو كر لے.
اور اگر دونوں چيزيں برابر ہوں تو اس كى مثال يہ ہے كہ:
ايك شخص ظہر كى نماز ادا كر رہا ہے اور اسے شك ہوا كہ يہ تيسرى ركعت ہے يا چوتھى؟ اور اس كے نزديك يہ راجح نہيں كہ يہ تيسرى ركعت ہے يا چوتھى؛ تو وہ يقين پر بنا كرے يعنى كم ركعات پر اور اسے تيسرى ركعت بناتے ہوئے چوتھى ركعت ادا كر كے سلام پھيرنے سے قبل سجدہ سہو كر لے.
اس سے يہ معلوم ہوا كہ اگر كوئى واجب رہ جائے، يا پھر ركعات كى تعداد ميں شك ہو اور دونوں ميں سے كچھ راجح نہ ہو تو سجدہ سہو سلام سے قبل كيا جائيگا.
اور نماز ميں كچھ زيادتى ہو گئى يا پھر شك كى صورت ميں دونوں وجہوں ميں سے ايك راجح ہو تو سجدہ سہو سلام كے بعد كيا جائيگا.
ديكھيں: مجموع فتاوى الشيخ ابن عثيمين ( 14 / 14 - 16 ).
واللہ اعلم

نماز ترك كرنے كا كفارہ

الحمد للہ:
جس نے ايك يا زيادہ فرضى نمازيں بغير كسى عذر كے ترك كرديں اسے اللہ تعالى كے ہاں سچى توبہ كرنى چاہيے، اور اس كے ذمہ كوئى قضاء اور كفارہ نہيں، كيونكہ فرضى نماز جان بوجھ كر عمدا ترك كرنا كفر ہے.
كيونكہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:
" ہمارے اور ان كے مابين عہد نماز ہے، جس نے بھى نماز ترك كى اس نے كفر كيا "
مسند احمد حديث نمبر ( 22428 ) سنن ترمذى حديث نمبر ( 2621 ) سنن نسائى حديث نمبر ( 462 ).
اور رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:
" آدمى اور شرك اور كفر كے مابين نماز كا ترك كرنا ہے "
صحيح مسلم حديث نمبر ( 242 ).
اور اس ميں سچى اور پكى توبہ كے علاوہ كوئى كفارہ نہيں.
ديكھيں: فتاوى اللجنۃ الدائمۃ للبحوث العلميۃ والافتاء ( 6 / 50 ).
اسى طرح نماز ايك مؤقت شدہ عبادت ہے جو محدود وقت كے ساتھ معني ہے، اور جس كسى نے بغير كسى عذر بھى مؤقت شدہ عبادت ترك كى حتى كہ اس كا متعين كردہ وقت ہى جاتا رہا مثلا نماز اور روزہ، اور پھر وہ اس عمل سے توبہ كرے تو اس پر كوئى قضاء نہيں ہے، اس ليے كہ شارع كى جانب سے وہ عبادت مؤقت تھى اور اس كا ابتدائى اور آخرى وقت مقرر كردہ ہے.
ديكھيں: فتاوى ابن عثيمين ( 1 / 322 ).
ليكن اگر كسى شخص نے شرعى عذر كى بنا پر نماز ترك كى مثلا نيند يا بھول كر تو اس كا كفارہ يہ ہے كہ جب اسے ياد آئے اور سويا ہوا بيدار ہو تو اسى وقت نماز ادا كر لے، اس كے علاوہ كوئى اور كفارہ نہيں.
جيسا كہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:
" جو كوئى بھى نماز بھول جائے يا اس سے سويا رہے تو جب اسے ياد آئے وہ نماز ادا كر لے، اس كا كفارہ يہى ہے "
صحيح بخارى حديث نمبر ( 572 ) صحيح مسلم حديث نمبر ( 1564 )
واللہ اعلم .

حالت حيض ميں مجبورا قرآن مجيد كو چھونا پڑا

الحمد للہ:

جمہور علماء كے ہاں بغير وضوء شخص ( حائضہ عورت وغيرہ ) كے ليے قرآن مجيد چھونا جائز نہيں؛ كيونكہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:
" قرآن مجيد كو طاہر شخص كے علاوہ كوئى اور نہ چھوئے "
موطا امام مالك حديث نمبر ( 468 ) علامہ البانى رحمہ اللہ تعالى نے ارواء الغليل حديث نمبر ( 122 ) ميں اسے صحيح قرار ديا ہے.
راجح قول يہى ہے كہ حائضہ عورت قرآن چھوئے بغير تلاوت كر سكتى ہے مثلا اگر وہ حافظہ ہے تو زبانى تلاوت كرنا جائز ہے، يا پھر قرآن مجيد كو كسى چيز كے ساتھ پكڑ كر تلاوت كر لے، اور اس كے ليے قرآن مجيد كى تفسير پر مشتمل كتاب پڑھنا بھى جائز ہے.
اس كى تفصيل آپ سوال نمبر ( 2564 ) اور ( 60213 ) كے جوابات ميں پڑھ سكتے ہيں.
چنانچہ آپ كو بغير كسى چيز كے بلاواسطہ قرآن مجيد پكڑنے سے گريز كرنا چاہيے تھا، بلكہ آپ كسى پاك كپڑا وغيرہ كے ساتھ قرآن پكڑ ليتى يا پھر دستانے پہن كر يا اس كے اوراق لكڑى يا قلم سے الٹتى تو يہ بہتر تھا.
اب جبكہ يہ ممنوعہ كام ہو چكا ہے، اس ليے اب آپ كو اس كام سے استغفار اور توبہ كرنى چاہيے، اللہ تعالى سے ہمارى دعا ہے كہ آپ كو معاف فرمائے، اور اسى طرح ہمارى يہ بھى دعا ہے كہ يہ آپ كا اپنى بہن كى معاونت كرنے والا عمل اللہ تعالى قبول كرتے ہوئے آپ كو اجروثواب عطا فرمائے.
واللہ اعلم