Thursday, December 22, 2022

ج: خود کشی

ج: خود کشی: الحمد للہ رب العالمین والصلاةوالسلام علی أشرف النبیاء والمرسلین وعلی آلہ وصحبہ أجمعین وبعد إن الحمد ﷲ نحمدہ ونستعینہ ونستغفرہ ونعوذ بالل...

Thursday, December 15, 2022

ج: صبر اور اس کے فوائد و ثمرات

ج: صبر اور اس کے فوائد و ثمرات:   اَلحَمدُ لِلّٰہِ نَحمَدُہ، وَنَستَعِینُہ، وَنَستَغفِرُہ، وَنَعُوذُبِاﷲِ مِن شُرُورِ اَنفُسِنَاوَمِن سَیِّئَآتِ اَعمَالِنَا مَن یَھدِہِ اﷲُ...

Thursday, December 8, 2022

ج: فتنوں کے دور میں مسلمان کا کردار 3

ج: فتنوں کے دور میں مسلمان کا کردار 3: اَلحَمدُ لِلّٰہِ نَحمَدُہ، وَنَستَعِینُہ، وَنَستَغفِرُہ، وَنَعُوذُبِاﷲِ مِن شُرُورِ اَنفُسِنَاوَمِن سَیِّئَآتِ اَعمَالِنَا مَن یَھدِہِ اﷲُ ف...

Wednesday, June 20, 2018

مسلکی اختلاف اور عام مسلمان?

شیخ ابن عثیمین رحمہ اللہ کہتے ہیں: 
"ایسی جماعتیں جو اتحاد کو سبوتاژ کریں، دلوں میں نفرتیں پیدا کریں تو یہ باطل جماعتیں ہیں۔ لیکن ایسی جماعتیں جو ایسی منفی حرکتیں نہیں کرتیں، جیسے کہ مسلمانوں کا فقہی مذاہب میں اختلاف ہے کہ یہ حنبلی ہے اور وہ شافعی ہے، یہ مالکی تو وہ حنفی تو اس میں کوئی نقصان نہیں ہے، بشرطیکہ دل ایک ہوں تو یہ کوئی بری چیز نہیں "ختم شد
" لقاء الباب المفتوح " (87/ 19)مکتبہ شاملہ کی خود کار ترتیب کے مطابق

اسی طرح شیخ صالح الفوزان حفظہ اللہ کہتے ہیں: 
"اہل سنت کے چاروں فقہی مذاہب جو ابھی تک باقی ہیں اور ان کی کتب اور مصادر مسلمانوں میں موجود ہیں تو ان میں سے کسی ایک فقہی مذہب کو اپنانا  اور اس کی طرف نسبت کرنے میں کوئی ممانعت نہیں ہے، اس لیے یہ کہا جا سکتا ہے کہ فلاں شافعی ہے، فلاں حنبلی ہے اور فلاں حنفی ہے اور فلاں مالکی ہے۔

یہ القاب قدیم زمانے سے بڑے بڑے علمائے کرام کے ساتھ بطور لقب چلتے آ رہے ہیں کہ فلاں حنبلی ہے، جیسے کہ کہا جاتا ہے کہ ابن تیمیہ حنبلی، ابن قیم حنبلی وغیرہ وغیرہ، تو ایسے القاب میں کوئی حرج والی بات نہیں ہے، لہذا صرف نسبت رکھنے میں کوئی حرج نہیں، بس شرط یہ ہے کہ اس مذہب کا اپنے آپ کو پابند مت بنائے کہ صحیح یا غلط سب کچھ ہی اسی سے لینا ہے ایسا مت کرے" ختم شد 
" مجموع فتاوى فضيلة الشيخ صالح بن فوزان " (2/ 701

Sunday, February 5, 2017

مرجئہ اور خوارج میں تقابل علامہ بدیع الدین شاہ الراشدی رحمہ اللہ

مرجئہ اور خوارج میں تقابل
علامہ بدیع الدین شاہ الراشدی رحمہ اللہ  ​

مرجئہ کا نظریہ ہے کہ اعمال ایمان کا حصہ نہیں ہیں ـجبکہ خوارج یہ نظریہ رکھتے ہیں ایک گناہ کا مرتکب بھی دائرہ اسلام سے خارج ہوجاتا ہے ـ یعنی دو گروہ ایک دوسرے کے مقابلے میں ہیں ـ ادھر یہ کچھ بھی کریں کافرنہیں ہوتے ، ادھر ایک گناہ کریں تو کافر ہو جائیں ـ ہم اہل السنہ والجماعہ ان دونوں گروہوں کے درمیان میں ہیں ـ اللہ تعالٰی نے خود اس کی گواہی دی ہے ـ فرمان باری تعالٰی ہے :
وَكَذَٰلِكَ جَعَلْنَاكُمْ أُمَّةً وَسَطًا لِّتَكُونُوا شُهَدَاءَ عَلَى النَّاسِ وَيَكُونَ الرَّ‌سُولُ عَلَيْكُمْ شَهِيدًا
سورہ البقرہ 143
 ہم نے اسی طرح تمہیں عادل امت بنایا تاکہ تم لوگوں پر گواہ ہو جاؤ اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم تم پر گواہ ہو جائیں ”
وسط کے مطلب کی آئندہ الفاظ میں وضاحت کریں کہ-
لِّتَكُونُوا شُهَدَاءَ-عَلَى النَّاسِ
لوگوں کے گواہ تم بنو ، ـ
اور تماری گواہی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم دیں ـ
وَيَكُونَ الرَّ‌سُولُ عَلَيْكُمْ شَهِيدًا ـ
اس سے واضح ہوا کہ عدل والی چیز وہ ہے جو اللہ تعالٰی اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بتائی ہوئی ہے ـ اس کے علاوہ سب افراط اور تفریط ہے ـ قرآن و سنت افراط و تفریط سے پاک ہیں ـ وحی الٰہی کی بتائی ہوئی ہر چیز کے ہم قائل ہیں ، ہم نے دونوں طرح کے دلائل کو مانا ہے ـ ہم نصوص کا آپس میں ٹکراؤ ہیدا نہیں کرتے ـ
مرجئہ نے اس طرح کے دلائل کو لیا ”
( من قال: لا إله إلا الله، دخل الجنة)
جس نے لا الہ الا اللہ کہا وہ جنت میں داخل ہو گا ”
اور باقی جو اعمال کے دلائل تھے ان کو پسِ پشت ڈال دیا ـ حالانکہ کہ لا الہ الا اللہ کا معنی یہاں بغیر اعمال کے پورا نہیں ہوتا ـ کیونکہ ” من قال لا الہ الا اللہ دخل الجنۃ ” کے دو احتمال ہیں ـ
اولا : یا تو اس میں حصر کا مطلب یعنی اس سے خارج کوئی ایمان نہیں
دوم :: یا پھر اس کا مطلب یہ ہے کہ یہ ایمان کا ایک شعبہ ہے ـ
اولا الذکر میں حصر کا مطلب نہیں ہوسکتا ،کیونکہ اگر حصر کا معںٰی لیں گے تو مراد یہ ہوگی کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم رسول نہیں ہیں ـ
اب سوال ہے کہ آیا اس شخص کو مسلمان مانا جائے گا جو یہ بات کہتا ہے ـ ‘ کیونکہ ” من قال لا الہ الا اللہ ” کہنے سے اگر جنت میں داخل ہو جائے گا ـ اگرچہ وہ نہ قیامت کو مانے نہ رسالت کو ! اگر حصر کا معنٰی کریں گے تو یہی مطلب ہو گا ـ
اور حقیقت یہ ہے کہ یہاں حصر نہیں ہے بلکہ اس کا معنٰی و مفہوم یہ ہے کہ ” لا الہ الا اللہ ” ایمان کے شعبوں میں سے ایک شعبہ ہے ـ جو تمام شعبوں میں سے اعظم اور اعلٰی ہے ـ جس کے فقدان سے ایمان ضائع ہو جاتا ہے ـ
یہ ایسا شعبہ ہے جس کے فقدان سے کل کا فقدان لازم آتا ہے- لہذا ان لوگوں کی اصطلاحات صحیح نہیں اور جو مذکور بالا اصول کو نہیں مانتا وہ مسلمان ہی نہیں ہے ـ تو مرجئہ نے ایک طرف کے دلائل کو لیا اور خوارج نے اعمال کے حوالے سے وارد و وعید والی آیتوں اور حدیثوں کو لے لیا اور دوسری جانب سے دلائل کو ترک کر دیا ـ لہذا دونوں گروہ ایک طرف کو تھامنے اور دوسری جانب کو چھوڑنے کے باعث ہلاک ہو گئے ـ
جبکہ ہم اہل الحدیث دونوں پر ایمان رکھتے ہیں ، ہم کہتے ہیں کہ اعمال ایمان کا حصہ ہیں َ ایمان کے اجزاء ہیں ، ان کی کمی سے ایمان گھٹتا ہےاور بڑھنے سے بڑھتا ہے ـ یہی صحیح بخاری کی کتاب الایمان میں بیان کردہ سلف کا عقیدہ ہے ـ مگر اس عقیدہ کے ساتھ ساتھ ہم کسی کی تکفیر کے قائل نہیں ہیں ـ ہم کسی کو کافر اسی عمل کے ارتکاب پر کہیں گے جس عمل پر تکفیر کے لیے نص وارد ہوئی ہو ـ
قرآن وحدیث میں جس گناہ گار کو کافر کہا گیا ہے ، اور جس فریضہ کے تارک کو کافر کہا گیا ہے ، ہم اسی کو کافر کہیں گے ہم اہنی طرف سے کفر کی تشریح نہیں کریں گے جیسا کہ خوارج نے کی –
یہ چند بڑے اختلافات تھے ـ اب جہمیہ میں بعض ایسے ہیں جو بلکل انکار کرتے ہیں ـ کچھ ایسے ہیں جو تاویل کرتے ہیں اور ان کے مقابلے میں صوفیہ نکلے ـ ادھر مقابلہ اور معتزلہ و خوارج کا ہے ـ اور قدریہ اور جبریہ کا ہے ـ ہمارا عقیدہ ان تمام کے عقائد کے درمیان کا عقیدہ ہے ـ
بنیاری طور پر اصول یہ ہے کہ انسان اگر تمام اصو لوں کو سامنے رکھے تو عقائد کا لینا آسان ہوجاتا ہے ـ جیساکہ ربِ تعالٰی کا فرمانِ مبارک ہے :
هُوَ الَّذِي أَنزَلَ عَلَيْكَ الْكِتَابَ مِنْهُ آيَاتٌ مُّحْكَمَاتٌ هُنَّ أُمُّ الْكِتَابِ وَأُخَرُ‌ مُتَشَابِهَاتٌ ۖ فَأَمَّا الَّذِينَ فِي قُلُوبِهِمْ زَيْغٌ فَيَتَّبِعُونَ مَا تَشَابَهَ مِنْهُ ابْتِغَاءَ الْفِتْنَةِ وَابْتِغَاءَ تَأْوِيلِهِ ۗ وَمَا يَعْلَمُ تَأْوِيلَهُ إِلَّا اللَّـهُ ۗ وَالرَّ‌اسِخُونَ فِي الْعِلْمِ يَقُولُونَ آمَنَّا بِهِ كُلٌّ مِّنْ عِندِ رَ‌بِّنَا ۗ وَمَا يَذَّكَّرُ‌ إِلَّا أُولُو الْأَلْبَابِ ”
(وہی اللہ تعالٰی ہے جس نے تجھ پر کتاب اتاری جس میں واضح مضبوط آیتیں ہیں جو اصل کتاب ہیں اور بعض متشابہ آیتیں ہیں ـ پس جن کے دلوں میں کجی ہے وہ تو اس کی متشابہ آیتوں کے پیچھے لگ جاتے ہیں ، فتنہ کی طلب اور ان کی مراد کی جستجو کے لئے ، حالانکہ اس کی حقیقی مراد کو سوائے اللہ تعالٰی کے کوئی نہیں جانتا اور پختہ اور مضبوط علم والے یہی کہتے ہیں کہ ہم ان پر ایمان لا چکے ہیں ، یہ ہمارے رب کی طرف سے ہیں اور نصیحت تو صرف عقلمند حاصل کرتے ہیں)
(سورة آل عمران-7 )
یہاں زیغ کا ہی نتیجہ ہے کہ یہ تمام فرقے منحرف ہو گئے اور راہ راست سے ہٹ گئے ـ اگر ان میں زیغ نہ ہوتا تو کم ازکم ان آیات پر تو عمل کرتے جو محکم ہیں ، جن میں اعتراض کی گنجائش نہیں ہے ـ لہذا معترضین ان آیات کا معنٰی نہیں کرتے جن میں تشابہ پایا جاتاہے ، اس لئے کہ یہ منکرینِ حدیث ہیں جو کہتے ہیں کہ فلاں روایت میں یہ ہے اور فلاں میں ـ لہذا جو تمہاری عقل کے مطابق ہے اس پر عمل کرو !ـ
یہ بھی ایسا ہی کرتے ہیں کہ جیسا کہ اہل الرائے کرتے ہیں کہ اپنی تاویلات کو لیکر باقی کو رد کردیتے ہیں ـ رب تعالٰی کا فرمان ہے ” ھن ام الکتاب ” یہ اصل اور بنیاد ہے ـ اہل زیغ متشابہات کے پیچھے چلتے ہیں ـ جبکہ اللہ تعالٰی نے یقین عطا کیا ہے ، ان کا وطیرہ یہ ہے کہ
رَ‌بَّنَا لَا تُزِغْ قُلُوبَنَا بَعْدَ إِذْ هَدَيْتَنَا وَهَبْ لَنَا مِن لَّدُنكَ رَ‌حْمَةً ۚ إِنَّكَ أَنتَ الْوَهَّابُ ”
(ائے ہمارے رب ! ہمیں ہدایت دینے کے بعد ہمارے دل میں ٹیڑھے نہ کردے اور ہمیں اپنے پاس سے رحمت عطا فرما ، یقننا تو ہی بڑی عطا دینے والا ہے ـ) ”
(سورة آل عمران-8 )
تو یہ ایسا ماحول تھا کہ جس میں ان مسائل پر لکھنے کی بہت ضرورت تھی ـ اس لئے امام بخاری رحمہ اللہ نے یہ کتاب مرتب فرمائی ـ گذاشتہ صفحات میں ان باطل عقائد کے حامل گروہوں کی توحید بیان ہوئی اب ہم اپنی اہل السنہ والجماعہ کی توحید سے متعلق وضاحت کرتے ہیں :
”ہماری توحید یہ ہے کہ ہم اللہ تعالٰی صفت وہ بیان کرتے ہیں جو اللہ تعالٰی نے خود اپنے لئے بان کی ہے یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اللہ تعالٰی کے حوالے سے بیان کی ہے ـاور اس صفت کی نفی کرتے ہین جس کی خود اللہ تعالٰی نے نفی کی ہے ـ اور جس کی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نفی کی ہے ـ اپنی طرف سے ہم نہ اثبات کرتے ہیں نہ نفی کرتے ہیں ـ اور اگر ہم کوئی ایسی صفت اللہ تعالٰی کے لیے بیان کردیں جو اللہ تعالٰی کی صفت نہ ہو تو گویا ہم نے اللہ تعالٰی پر وہ بات کہی جس کے کہنے کا ہمیں حق نہیں ـ حالانکہ یہ گناہ سب سے بڑا حتی کہ شرک سے بھی بڑا ہے ـ
قُلْ إِنَّمَا حَرَّ‌مَ رَ‌بِّيَ الْفَوَاحِشَ مَا ظَهَرَ‌ مِنْهَا وَمَا بَطَنَ وَالْإِثْمَ وَالْبَغْيَ بِغَيْرِ‌ الْحَقِّ وَأَن تُشْرِ‌كُوا بِاللَّـهِ مَا لَمْ يُنَزِّلْ بِهِ سُلْطَانًا وَأَن تَقُولُوا عَلَى اللَّـهِ مَا لَا تَعْلَمُونَ۔
” آپ فرما دیجیے کہ البتہ میرے رب نے صرف حرام کیا ہے ان تمام فحش باتوں کو جو اعلانیہ ہیں اور جو پوشیدہ ہیں اور ہر گناہ کی بات کو ناحق کسی پر ظلم کرنے کو اس بات کوکہ اللہ کےساتھ کسی ایسی چیزکوشریک ٹھہراؤ جس کی اللہ نے کوئی سند نازل نہیں کی اور اس بات کو تم لوگ اللہ کے ذمہ ایسی بات نہ لگا دو جس کو تم جانتے نہیں “
(الاعراف-33 )
یہ شیطانی کام ہے کہ ہم اللہ تعالٰی پر وہ بات کہیں جس کا ہمیں علم نہیں ـ لہذا جس صفت کا ذکر نہیں ہم اس سے خاموش ہیں ـ اگر ہم نے یہ کہ دیا کہ یہ صفت اللہ کی نہیں تو مطلب ہوا کہ اللہ کی طرف سے ایسی بات منسوب نہ تھی ، اور اگر موجود ہے تو ہم نے اللہ کی طرف نقص کی نسبت کردی ـ
لہذا سلامتی کا طریقہ یہی ہے جس طرح سلف رحمہم اللہ کا عقیدہ ہے ـ اسی چیز کو ثابت کیا جائے جو کتاب اللہ اور سنت رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہے اور اسی چیز کی نفی کی جائے جس کی کتاب اللہ اور سنت رسول صلی اللہ علیہ وسلم میں نفی کی گئی ہے ـ اور جہاں سکوت ہے وہ سکوت اختیار کیا جائے ـ
امام مالک رحمہ اللہ فرماتے ہیں :”
أهل البدع الذين يتكلمون في أسماء الله وصفاته وكلامه وعلمه وقدرته، ولا يسكتون عما سكت عنه الصحابة والتعابعين
(اہل ِ بدعت وہ ہیں جو اللہ کی ذات اس کے کلام اور اسکی صفات میں بات کرتے ہیں ـ اور اس چیز پر خاموش نہیں رہتے جس پر صحابہ و تابعین خاموش رہے تھے ”)
اور جب استواء کا مسئلہ آیا تو آپ نے فرمایا
الاستواء معلوم والكيف مجهول والايمان به واجب ,والجحود کفر والسؤال عنه بدعة 
(عرش پر مستوی ہونا معلوم ہے ، لیکن اسکی کیفیت مجہول ہے ـ اور اس پر ایمان لانا واجب ہے ـ اس کا انکار کفر ہے اور اس کے متعلق سوال کرنا بدعت ہے)
اہل الرائے پر بہت تعجب ہوتا ہے ـ ہم ان سے سوال کرتے ہیں ، اللہ تعالٰی کی توحید اور اس کی صفات کے سب سے پہلے مخاطب کون لوگ تھے ؟ یقننا وہ صحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین تھے ـ انہوں نے ان صفات کو سنا تو کیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اس بابت سوالات کئے ؟ کیا وہ معنی جانتے تھے یا نہیں ؟ وہ بھی جانتے تھے کہ اللہ تعالٰی کے لیے جسم نہیں ہوسکتا ، تشبیہ بھی نہیں ہوسکتی ، انہوں نے اس بابت سوالات نہیں کئے ـ کیا سوال نہ کرنے سے ان کے ایمان میں کوئی نقص آیا ؟ بغیر سوال کے ان کا ایمان کامل و مکمل تھا ـ تو جب ان کا ایمان صفات میں سوال کئے بغیر مکمل ہوتا ہے تو ہمارا کیوں نہین ہوتا ـ ؟ ہمیں کیا ضرورت پڑی ہے کہ ہم خوامنخواہ تفصیل پوچھیں کہ بھائی استواء کیا ہے ؟ـ معنی معلوم ہے اور اللہ کی ذات بے مثل و بے مثال ہے ـ ان چند لفظوں میں ہماری توحید ہے جبکہ اہل باطل کی توحید جھگڑے اور تنازعات سے معمور ہے ـ
جتنا انسان ان مسائل کی تہہ میں جائے گا اتنا ہی الجھے گا ـ لہذا ضروری ہے کہ انسان تکلف میں نہ پڑے جو چیز سمجھ میں آجائے اور اس پر عمل کرے اور جو مشکل ہو ” فیکله الی عالمه -اس کو اہل علم کے سپرد کردے ” اور اسی پر اکتفا کرے ـ قرآن ایمان لانے کے لیے اتارا گیا ہے کوئی اکھاڑے بنانے کے لئے نہیں ـ
لہذا امام بخاری رحمہ اللہ و دیگر محدثین نے ان باطل نظریات و عقائد (جن کے ذریعے لوگوں نے کھیل تماشا بنا کر مسائل گھڑے )کی مکمل طور پر ناکہ بندی کی ـ اسی وجہ سے امام بخاری رحمہ اللہ نے ایک مستقل باب قائم کیا ” باب اجیاد الاحاد ” اور اسی طرح ان کا جو حیلہ اور مکر تھا اس کا بھی ایک الگ اور مستقل عنوان قائم کیا ـ کیونکہ اہل الرائے ہر معاملے میں حیلہ اور مکر سے کام لیتے ہیں َ شیعہ کے ہاں ” تقیہ ” اور اہل الرائے کے ہاں ” حیلہ ” دونوں ایک ہی عمل ہیں ـ دونوں اصطلاحات کا مقصد ایک ہی ہے کہ ہر چیز جائز ہوجاتی ہے ـ
وصلی اللہ وسلم علی نبینا محمد وعلی آلہ وصحبہ اجمعین 

خوارج کی ابتداء اور ان کی پہچان (حصہ دوم )

خوارج کی ابتداء اور ان کی پہچان
(حصہ دوم ) 
الحمد للہ والصلوۃ والسلام علی رسول اللہ اما بعد !
بعض  علماء کرام اس بات کی پختہ رائے رکھتے ہیں کہ خارجیوں کی ابتداء دراصل رسول اللہ ﷺ کی حیات طیبہ سے ہی ہوگئی تھی یہ علماء ذوالخویصرہ کو خارجیوں کا پہلا آدمی شمار کرتے ہیں ۔ اس شخص نے رسول اللہ ﷺپر اس سونے کی تقسیم کی بارے میں اعتراض کیا تھا جسے سیدناعلی بن طالب رضی اللہ عنہ نے ملک یمن سے نبی کریم ﷺکی طرف مدینہ منورہ روانہ کیا تھا۔ اس وقت آپ رضی اللہ عنہ رسول اللہ ﷺکی طرف سے یمن کے امیر گورنر مقرر تھے ۔
سیدنا ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ : حضرت علی بن ابو طالب رضی اللہ عنہ نے یمن سے رسول اللہ ﷺکے پاس بیری کے پتوں سے دباغت دیے ہوئے چمڑےکےایک تھیلے میں سونےکے چندڈلے بھیجے ان ڈلوں سے ابھی  کان کی مٹی بھی صاف نہیں کی گئی تھی پھر نبی کریمﷺ نے وہ سونا چار آدمیوں میں تقسیم کردیا یعنی عیینہ بن بدر ، اقرع بن حابس ، زید بن خیل اورعلقمہ یاعامربنی طفیل رضی اللہ عنہم کے درمیان ۔ آپ ﷺکے اصحاب میں سے ایک آدمی نے اس پر کہا : ان لوگوں سے زیادہ ہم اس سونے کے حق دار تھے ۔ راوی کا کہنا ہے کہ جب نبی مکرمﷺ کو معلوم ہوا تو آپنے فرمایا :
«أَلاَ تَأْمَنُونِي وَأَنَا أَمِينُ مَنْ فِي السَّمَاءِ، يَأْتِينِي خَبَرُ السَّمَاءِ صَبَاحًا وَمَسَاءً»،
قَالَ: فَقَامَ رَجُلٌ غَائِرُ العَيْنَيْنِ، مُشْرِفُ الوَجْنَتَيْنِ، نَاشِزُ الجَبْهَةِ، كَثُّ اللِّحْيَةِ، مَحْلُوقُ الرَّأْسِ، مُشَمَّرُ الإِزَارِ، فَقَالَ يَا رَسُولَ اللَّهِ اتَّقِ اللَّهَ،
قَالَ: «وَيْلَكَ، أَوَلَسْتُ أَحَقَّ أَهْلِ الأَرْضِ أَنْ يَتَّقِيَ اللَّهَ»
قَالَ: ثُمَّ وَلَّى الرَّجُلُ، قَالَ خَالِدُ بْنُ الوَلِيدِ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، أَلاَ أَضْرِبُ عُنُقَهُ؟
قَالَ: «لاَ، لَعَلَّهُ أَنْ يَكُونَ يُصَلِّي»
فَقَالَ خَالِدٌ: وَكَمْ مِنْ مُصَلٍّ يَقُولُ بِلِسَانِهِ مَا لَيْسَ فِي قَلْبِهِ،
قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «إِنِّي لَمْ أُومَرْ أَنْ أَنْقُبَ عَنْ قُلُوبِ النَّاسِ وَلاَ أَشُقَّ بُطُونَهُمْ»
قَالَ: ثُمَّ نَظَرَ إِلَيْهِ وَهُوَ مُقَفٍّ، فَقَالَ: «إِنَّهُ يَخْرُجُ مِنْ ضِئْضِئِ هَذَا قَوْمٌ يَتْلُونَ كِتَابَ اللَّهِ رَطْبًا، لاَ يُجَاوِزُ حَنَاجِرَهُمْ، يَمْرُقُونَ مِنَ الدِّينِ كَمَا يَمْرُقُ السَّهْمُ مِنَ الرَّمِيَّةِ»، وَأَظُنُّهُ قَالَ: «لَئِنْ أَدْرَكْتُهُمْ لَأَقْتُلَنَّهُمْ قَتْلَ ثَمُودَ»
[ رواہ البخاری ، کتاب المغازی : رقم الحدیث : 4351 ، صحیح مسلم ، کتاب الزکاۃ رقم الحدیث : 1064 ]
“تم میرے اوپر اعتبارنہیں کرتے حالا نکہ اس اللہ نے مجھ پر اعتبار کیا ہے اور اس اللہ رب العزت کی وحی جو آسمان پر ہے میرے پاس صبح و شام آئی ہے ”
راوی نے بیان کیا کہ : پھر ایک شخص کہ جس کی آنکھیں دھنسی ہوئی تھیں ، دونوں رخسار ابھرے ہوئے تھے،  پیشانی بھی ابھری ہوئی تھی ، ڈاڑھی گھنی اور سر منڈا  ہواتھا ، تہبند اُٹھائے ہوئے  تھا ۔ ۔ ۔ کھڑا ہوا اور کہنے لگا : یا رسول اللہ! اللہ سے ڈریں ۔
آپﷺنے فرمایا : “افسوس تجھ پر ۔ کیا میں روئے زمین پر اللہ سے ڈرنے کا سب سے زیادہ مستحق نہیں ہوں؟
راوی نے بیان کیا کہ : پھر وہ شخص چلا     گیا ۔ خالد بن ولید رضی اللہ  عنہ نے عرض کیا : اے اللہ کے رسول ﷺ! میں کیوں نہ اس شخص کی گردن مار دوں؟
نبی کریمﷺنے فرمایا : نہیں شاید وہ نماز پڑھتا ہو ۔
اس پرخالد بن والید رضی اللہ عنہ نے عرض کیا : بہت سے نماز پڑھنے والے ایسے ہوتے ہیں جوزبان سے اسلام کادعوی کرتے ہیں جبکہ ان کے دل میں اسلام نہیں ہوتا ۔
نبی کریم ﷺنے فرمایا : مجھے اس بات کا حکم (اللہ عز وجل کی طرف سے) نہیں دیا گیا کہ لوگوں کے دلوں کی کھوج لگاؤں اور نہ اس کا مجھے حکم ہوا ہے کہ ان کے پیٹ چاک کروں ۔ ”
راوی نے بیان کیا کہ : پھر نبی کریمﷺ نے اس منافق کی طرف دیکھا تو وہ پٹھ پھیر کر جار ہا تھا ۔
آپﷺنے فرمایا : “اس کی نسل سے ایسی قوم نکلے گی جو کتاب اللہ کی تلاوت بڑی خوش الحانی کے ساتھ کرے گی ۔ لیکن قرآن ان کے حلق سے نیچے نہیں اتر ے  گا ۔دین سے وہ لوگ اس طرح نکل جائیں گے جیسے تیر جانور کے جسم سے پار نکل جاتا ہے ۔ “ اور میرا یقینی گمان یہ نبی کریمﷺنے یہ بھی فرمایا تھا : “اگر میں نے ان کا دور پا لیا تو بالکل قوم ثمود کی طرح ان کو قتل کر ڈالوں گا۔ “
مندرجہ بالا حدیث میں جس شخص کی یہ علامات بیان ہوئی ہیں اس کا تذکرہ صحیح البخاری کی دیگر احادیث میں بھی آیا ہے جیسے کہ “کتاب المناقب ، باب علامات النبوۃ فی الاسلام ” رقم الحدیث : 3610 میں اس کا نام اور اس فرقے کی مزید دیگر علامات کا ذکر بھی موجود ہے ۔ اسی طرح کتاب استتابۃ المرتدین ، باب من ترک قتال الخوارج ۔۔۔۔ الخ رقم الحدیث : 6933 میں بھی اس کا ذکر موجود ہے ۔ 
ابن جوزی رحمہ اللہ کی رائے :
اس حدیث کی شرح میں امام ابن جوزی نے لکھا ہے کہ : خارجیوں کا سب سے پہلا شخص خارجیت کا مؤسس ان میں سب سے بُرا (کہ جسں اس فتنے کی بنیاد رکھی)ابن ذو الخویصرہ تمیمی تھا ۔ روایات میں جو اس کے الفاظ منقول ہوئے ہیں ۔ ان میں سے یوں بھی اس نے کہا تھا :
يا رسول الله اعدل  ۔ ۔ ۔
الله كے رسول ! انصاف کریں ۔
چنا نچہ آپﷺنے فرمایا : ويلك   أ ومن يعدل اذا لم أعدل؟  
افسوس ہے تم پر ! اگر میں انصاف نہیں کر رہا تو دنیا میں اور کون  انصاف کرے گا؟
[صحیح مسلم رقم الحدیث : 2456 ]
تو یہ پہلا خارجی تھا جس نے اسلام میں خروج کیا تھا ۔ اس کے لیے مصیبت یہ تھی کہ یہ ظالم اپنی ذاتی رائے پر راضی تھا ۔ اگریہ (بدبخت ) توقف کرتا اور ہاں اس مجلس میں رکا رہتا تو اس بات کو جان لیتا کہ رسول اللہ ﷺکے فیصلہ و حکم اور رائے کے اوپر کسی کی رائے کی کوئی حیثیت نہیں ہے ۔ اس آدمی (عبد اللہ بن نافع ذو الخویصرہ التمیمی )کے پیروکار ہی وہ  لوگ تھے کہ  جنہوں نے امیر المؤمنین سیدنا علی رضی اللہ عنہ  سے جنگ کی تھی ۔
[دیکھیے ؛ امام ابن جوزی رحمہ اللہ کی ” تلبیس ابلیس” ص : 90 ]
جیسا کہ اوپر حاشیہ میں صحیح بخاری کی حدیث 3610 میں ذکر ہے کہ حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں : میں گواہی دیتا ہوں کہ یہ حدیث میں نے خود نبی کریم ﷺ سے سنی تھی اور میں اس بات کی گواہی دیتا ہوں کہ : امیر المؤمنین سیدنا علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ نے ان خارجیوں سے جنگ کی تھی ۔ اس وقت میں بھی سیدنا علی رضی اللہ عنہ کے ساتھ تھا ۔
عبد اللہ بن ذوالخوایصرہ کو خوارج کا پہلا سردار قرار دینے والوں میں درج ذیل علماء عظام شامل ہیں : 
(١) ۔ ۔ ۔ امام ابو محمدجزم
[الفصل فی الملل والاھواء والنحل 1/157 ]
(٢) ۔ ۔ ۔ ۔ علامہ ابو الفتح محمد بن عبد الكريم شهرستانی  
[الملل والنحل للشھرستانی  : 1/161]
ليكن بعض علماء كي رائےہے کہ خارجیوں کے فتنے کا  آغاز امیر المومنین سیدنا عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ کے خلاف ان کے خروج سے ہوا تھا  ۔ خوارج کی نشاۃ اُولیٰ اس فتنہ کے اٹھا نے  سےہوئی تھی کہ جسں کا انجام انتہائی ظلم واستبداد اور سرکشی کے ساتھ سيدنا عثمان رضی الله عنہ كے قتل پرہوا تھا ۔ یہ فتنہ کہ جسے ان لوگوں نے اٹھا یا تھا اس کا نام “پہلا فتنہ ” رکھا گیا تھا ۔
[عقیدۃ اہل السنۃ فی الصحابۃ : 3/1141 ]
عقیدہ طحاویہ کے شارح نے لکھا ہے کہ : خارجی اور شیعہ دو نوں گروہ اس پہلے فتنہ میں شریک ہوئے تھے ۔
[شرح عقیدہ طحاویہ ، ص: 563]
علامہ ابن کثیر رحمہ اللہ نے ہنگامہ آرائی کی وجہ سے ان لوگوں پر خوارج کے نام کا اطلاق کیا ہے کہ جنھوں نے امیر المومنين سیدنا عثمان بن عفان  رضی الله عنہ کے خلاف خروج کر کے انھیں شہید کر ڈلاتھا ۔ علامہ ابن کثیر رحمہ اللہ نے جناب عثمان رضی اللہ عنہ کے قتل کے بعد خوارج کا ذکر کرتے ہوئے لکھا ہے : اس کے بعد خارجی آئے اور انہوں نے مسلمانوں کا بیت المال لوٹ لیا ۔ اس بیت المال میں ڈھیروں چیزیں تھیں ۔
[البدایہ والنھایہ : 7/202]
راجح رائے:
خارجیوں کی نشاۃ اُولیٰ کے بارے میں باوجود اس کے کہ : عبد الله بن ذوالخويصره تمىمي کے درمیان اور ان ہنگامہ کرنے والوں(دہشت گردوں)کے درمیان ایک مضبوط تعلق پا یا جا تا ہے کہ جنھوں نے سيدنا عثمان بن عفان رضی الله عنہ کے  خلاف خروج کیا تھا اور ان  خوارج کے درمیان کہ جنھوں نے فیصلے کا اختیار صرف اللہ عز وجل کی ذات اقدس کو ہی دینے کا نظر یہ اختیار کیا تھا (کہ اللہ تعالی اپنے عرش سے زمین پر نزول فرما کر بندوں کے درمیان فیصلے کرے ) اس سبب کی بنا پر انھوں نے سیدنا علی بن ابو طالب رضی الله عنہ کے خلاف خروج کیا تھا ۔ ۔ ۔ ۔
زیادہ راجح رائے یہ ہے کہ : اپنے دقیق معنی میں “خوارج “ کی اصطلاح کا اطلاق  صرف سیدنا علی رضی الله عنہ کے خلاف تحکیم سبب خروج کر نے والوں پر ہوگا ۔ اس حکم میں کہ ایک بہت بڑے گروہ کی صورت میں وہ ایک جماعت تھے کہ جس کا ایک سیاسی رخ تھا۔ ان کی خاص آراء  اور نظریات تھے کہ جس نے با قاعدہ ایک عقیدہ کےطور پر فکری اثر چھوڑا تھا جو آج تک موجود ہے۔
[ العواجی کی “الفرق المعاصرۃ” 1/67 اور عبد الحمیدکی ” خلافت علی رضی اللہ عنہ ” ص 269 ]

خوارج کی ابتداء اور ان کی پہچان (حصہ اول)

خوارج کی ابتداء اور ان کی پہچان
(حصہ اول) 
الحمد للہ والصلوۃ والسلام علی رسول اللہ اما بعد !
اہل علم نے بہت ساری علامتوں اور پہچان کی نشانیوں کے ساتھ خوارج کا تعارف کروایا ہے ۔ ان میں سے ایک پہچان علامہ ابو الحسن اشعری رحمہ اللہ نے یوں کروائی ہے ؛
بلا شبہ خوارج کا نام اس گروہ پر بولا جاتا ہے کہ جنہوں نے چوتھے خلیفہ راشد امیر المؤمنین سیدنا علی بن ابو طالب رضی اللہ عنہ پر خروج کیا تھا (یعنی ان کے خلاف انہوں نے بغاوت کی تھی ) چنانچہ خوارج کی وجہ تسمیہ یہی ان کا سیدنا علی رضی اللہ عنہ کے خلاف خروج بن گئی اور خارجیوں کی اس وجہ تسمیہ کا سبب ، جناب علی رضی اللہ عنہ کا ان کے متعلق ایک فیصلے کے نتیجہ میں آپ رضی اللہ عنہ کے خلاف ان کا خروج بن گیا ۔
[مقالات الاسلامیین 207/1 ]
امام ابن قیم رحمہ اللہ نے وضاحت کے ساتھ بیان فرمایا ہے کہ :
خارجی کا نام ہر اس شخص پر منطبق ہو جاتا ہے کہ جو سیدنا علی بن ابو طالب رضی اللہ عنہ وارضاہ کے خلاف خروج کرنے والوں کے افعال و اقوال اور نظریات کی مشابہت اختیار کر لے اور ان کے عقیدہ کو اپنا لے ۔ اسی طرح ہر وہ شخص کہ جو قرآن و سنت کو فیصلہ کن شریعت و قانون ماننے سے انکار ، کبیرہ گناہ کے مرتکب مسلمان شخص کو کافر قرار دینے اور ظلم و زیادتی کرنے والے مسلمان حکام کے خلاف خروج کا فتوی دینے میں خوارج کی موافقت کرے تو وہ خارجی کہلائے گا ۔ اگر وہ یہ بھی عقیدہ رکھے کہ کبیرہ گناہوں کے مرتکب مسلمان ہمیشہ ہمیشہ کے لئے جہنم میں رہیں گے اور یہ کہ امامتِ کبری قریشی خلفاء کے علاوہ دوسروں کے لئے بھی جائز ہے تو وہ بھی خارجی ہی شمار ہو گا ۔  مذکورہ بالا ان چھ بنیادی باتوں کے ساتھ ساتھ دیگر ایسے امور میں بھی خوارج سے اگر اختلاف کرے کہ جن کے بارے میں اہل ِ اسلام بھی ایک دوسرے سے اختلاف کرتے ہیں تو پھر وہ خارجی شمار نہیں ہو گا ۔
[ الفصل فی الملل والاھواء والنحل رقم 113 ]
علامہ ابو الفتح محمد عبد الکریم شہرستانی رحمہ اللہ نے خارجیوں کی ایک عام سے پہچان کرواتے ہوئے لکھا ہے ؛
 “وہ امام و امیر المسلمین کہ جس کی امارت و حکومت پر ملت کا اجماع ہو چکا ہو اس کے خلاف غداری ہ ہنگامہ بازی اور قتل و غارت اس پر اور اس کی شرعی امارت و امامت پر خروج شمار ہو گا ۔ یہ خروج چاہے کسی بھی زمانے میں ہو خروج علی الامام ہی شمار ہو گا ۔ “
اور خارجیوں کی تعریف کرتے ہوئے امام شہرستانی رحمہ اللہ لکھتے ہیں ؛ 
“ہر وہ شخص کہ جو ہر اس امام و امیر المسلمین کے خلاف خروج (غداری و قتل گری) کرے کہ جس پر مسلمانوں کی پوری جماعت اتفاق کر چکی ہو اس کا نام  “خارجی ” ہو گا ۔ چاہے یہ خروج صحابہ کرام کے دور میں خلفاء و آئمۃ المسلمین الراشدین المھدیین کے خلاف ہو ، چاہے ان کے بعد تابعین عظام کے زمانہ میں ہو یا آج تک کسی بھی دور میں کسی بھی امام و امیر المسلمین برحق کے خلاف ہو ۔ “
[الملل والنحل للشھرستانی ]
علامہ ابن حجر عسقلانی رحمہ اللہ خوارج کی تعریف کرتے (پہچان کرواتے ) ہوئے فرماتے ہیں ؛
“خوارج وہ لوگ تھے کہ جنہوں نے امیر المؤمنین سیدنا علی بن ابو طالب رضی اللہ عنہ کے خلیفۃ المسلمین منتخب ہونے پر کھلا انکار کیا تھا اور وہ سیدنا علی رضی اللہ عنہ ، ان کی اولاد اور سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ سے یکسر الگ ہو گئے تھے انہوں نے ان تمام اصحاب الرسول سے جنگ کی تھی اور ان خوارج نے مذکورہ بالا اصحاب الاخیار والاطہار کی تکفیر کو چھوڑ دیا تھا تو یہ انتہائی سرکش ، غلو سے کام لینے والے لوگ تھے ۔ ”
[ھدی الساری فی مقدمۃ فتح الباری ص 459 ]
ایک اور پہچان کرواتے ہوئے آپ رحمہ اللہ ان کے بارے میں فرماتے ہیں ؛  
“خوارج سے مراد خارجیوں کی جماعت ہے یعنی ایک بڑا سرکش قسم کا گروہ ۔ یہ اہل ِ بدعات کی ایک جماعت تھی کہ جن کا یہ نام ؛ دین ِ حنیف اور مسلمانوں کے سب سے بہتر لوگوں پر خروج کی وجہ سے رکھا گیا تھا ۔ ”
[فتح الباری 283/2 ]
علامہ ابو الحسن الملطی رحمہ اللہ کی رائے یہ ہے کہ ؛
فیصلہ شدہ سب سے پہلے خوارج وہ تھے کہ جنہوں نے لا حکم الا للہ ۔۔۔ اللہ عزوجل کی ذات اقدس کے علاوہ کسی کا فیصلہ قابلِ قبول نہیں کا نعرہ لگایا تھا ۔ اور ان کا دوسرا نعرہ یہ تھا کہ ؛ امیر المؤمنین سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے کفر کا ارتکاب کیا ہے والعیاذ باللہ کہ انہوں نے بندوں کے درمیان فیصلے کا اختیار حضرت ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ کو سونپ دیا تھا ۔ جبکہ فیصلے کا اختیار تو صرف اللہ تعالیٰ کو ہے ۔ خارجیوں کے فرقے کو اس وجہ سے بھی خوارج کہا جاتاہے کہ انہوں حکمَین والے دن سیدنا علی ﷜کو خلاف خروج کیا تھا کہ جب انہوں نے جناب علی اور ابو موسیٰ اشعری کے فیصلہ کرنے والے عمل کو ناپسندیدگی اور نفرت سے دیکھتے ہوئے کہا تھا ؛  لا حکم الا للہ ۔۔۔۔۔
[التنبیہ والرد علی اھل الاھواء والبدع ص 47 ]
محترم جناب ڈاکٹر ناصر عبد الکریم العقل اپنی کتاب “الخوارج ” میں صفحہ 38 پر کہتے ہیں ؛
“خوارج وہ لوگ ہوتے ہیں جو کبیرہ گناہوں کی بناء پر اہل ایمان کو کافر شمار کرنے لگتے ہیں اور اپنی عوام پر ظلم و زیادتی کرنے والے امراء المسلمین پر وہ خروج و سرکشی کرتے ہیں۔ ” 
خلاصہ پہچان ؛
معلوم ہوا کہ خوارج وہ لوگ تھے کہ جنہوں نے اپنی ابتداء میں ہی جنگِ صفین کے موقع پر امیر المومنین سیدنا علی بن ابو طالب رضی اللہ عنہ ارضاہ کی طرف سے صلح کے لئے جانبین سے مقرر شدہ حکم کو قبول و منظورکر لینے کے بعد ان کے خلاف خرورج و بغاوت اور سرکشی کی تھی ۔ خوارج والے لقب اور علامتی نام کے علاوہ بھی ان کے کچھ القاب ہیں کہ جن سے ان کو پہچانا جا سکتا ہے ۔ جیسے (١)حروری (٢) شراۃ (٣)مارقہ اور (٤) محکمی وغیرہ سوائے مارقہ والے لقب کےباقی تمام القاب و معارف کو وہ خوشی سے قبول کرتے ہیں ۔ چنانچہ وہ انکار کرتے ہیں کہ جس طرح تیر کمان سے نکل جاتا ہے اس طرح سے وہ دین سے خارج نہیں ہوتے ۔
اسی طرح ان کو “قعدیہ ” کا لقب بھی دیا جاتا ہے ۔ یہ ان میں خاص قسم کے لوگوں کو کہا جاتا ہے جو عملاً میدان میں خوارج کے ساتھ شریک نہیں ہوتے بلکہ صرف اس خارجی منہج کو ترویج و اشاعت میں بھر پور کردار ادا کرتے رہتے ہیں ۔ 
نوٹ :
حروری : عراق میں حروراء مقام پر شروع شروع میں خارجیوں کے نمودار ہونے کی وجہ سے ان کا نام حروری پڑ گیا ۔
شراۃ : شری یشری شراء کا معنی خریدنا اور بیچنا کے ہیں ۔ شراۃ اس لئے نام پڑ گیا کیونکہ یہ بظاہر دھوکا دہی کے لئے کہا کرتے تھے : ہم نے اللہ کی اطاعت میں اپنے آپ کو بیچ دیا ہے یعنی ہم نے جنت کے بدلے اپنے آپ کو بیچ دیا ہے ۔
محکمی : اہل ایمان کا قران و سنت کے مطابق فیصلے کرنے والے عمل کے انکار میں ان کے لا حکم الا للہ کہنے کی وجہ سے ان کی محکمی کہا جاتا ہے ۔
مارقہ : چھید کر پار ہو جانے والے تیر کو عربی زبان میں المارق کہتے ہیں چونکہ نبی کریم ﷺ نے ان کے دین سے نکل جانے کو اسی سے مشابہت دی ہے اس لئے انہیں مارقہ کہا جاتا ہے ۔  
(جاری)
https://islamic361.blogspot.com/b/post-preview?token=qHWZEVoBAAA.9U6LFM9E1JKq9ze--AGd4JZ6ZKdEpziC4mWsstKUXbx0SAv7KXUQ5qQHpTfC_ctcK-mvVHjdzrcm1CIaWMKO-g.YSR2yHqUEz9IPNe_avLRHA&postId=5829811537046570998&type=POST